مجتبیٰ فاروق۔۔۔۔ کانہامہ بیروہ
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بچوں پر مظالم اور جرائم کا گراف وسیع پیمانے پر بڑھ گیا ۔بچوں کے خلاف پیش آنے والے جرائم میں قتل کرنا ، جسمانی ایذائیں دینا ، چھیڑ چھاڑ، جنسی ہراسانی ، تشدد ، عصمت دری ، اغوا کاری ، نشہ آور ادویات اور مزدوری کروانا وغیرہ شامل ہیں ۔ لیکن آٹھ دس سالوں میں بچوں پر مظالم کا گراف آسمان کو چھونے لگا ۔ کہیں ان پر درندہ صفات انسان گولیوں سے چھلنی کرکے موت کی نیند سلا دیتا ہے تو کہیں ظالم انسان ان پر ظلم وستم کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے ۔ کہیں مفاد پرست انسانوں نے بچوںکو غلامی سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے ۔ کہیں بچوں کو جرائم کی طرف زبردستی دھکیلا جاتا ہے ۔ تو کہیں آوارگی ، جنسی درندگی ، ڈکیتی ، چوری اور بالآخر خودکشی پر بھی کرنے پر مجبور کیا جارہاہے ۔ غرض دنیا کے ہر کونے میں غریب ، لاچار اوربے سہارا بچوں کو درندہ صفات انسانوں اور حکومتوں نے جینا دوبھر کردیا ہے ۔ اور اب وہ کہیں بھی محفوظ و مامون نظر نہیں آرہے نہیں ہیں۔ روز سینکڑوں کی تعداد میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو مظلوم بچوں کے ظلم و استحصال سے متعلق ہوتے ہیں ۔ یہ واقعات و حادثات ان کی مظلومیت کی آہیں اور ان کی حالت زار سناتے ہیں ۔ اب یہ ایک نہ تھمنے والا سلسلہ بن چکا ہے ۔ ۲۰۱۲ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی جانب سے کرائے گئے سروے سے خطرناک صورت حال کا پتہ چلا کہ کہ نویں جماعت میں آنے سے پہلے ۵۰ فیصد بچے کسی ایک نشے کا کم سے کم ایک بار استعمال کرچکے ہوتے ہیں ۔ I. L. Oجو مزدوروں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے ، کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں گھر یلو ملازموں کے طور پر کام کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر مزدور بچوں کی عمر ۱۴ سال سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں ۷۱ فیصد لڑکیاں ہیں جن کے جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔
ہندوستا ن کی بات کی جائے تو یہاں ۶۰ فیصدی آبادی ۱۸ سال سے کم عمر کے ہیں جن میں ۲۱ کروڑ ۱۶ سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ یہاں بچوں کے خلاف جرائم بڑھتے ہی جارہے ہیں بالخصوص پچھلے چار سالوں میں بچوں پر تشدد اور ان کے خلاف جرائم میں بے حدد اضافہ ہو ا ہے ۔ ۔ ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ ء میں ۵۰ فیصد کا اس میں اضافہ ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے خلاف ظلم و ستم کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ نیشنل کرائم رکارڈ کے بیرو کے مطابق ۲۰۱۴ ء میں بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات ۹۰۰۰۰ درج کئے گئے ۔ جس میں ۳۷۰۰۰ ہزار اغواکے اور ۱۴۰۰۰ ہزار ریپ سے متعلق ہے ۔ ہندوستان کی مرکز ی وزیر مینکا گاندھی نے اس کو سرکاری طور پر اعتراف بھی کیا کہ ۲۰۱۳ء میں بچوں کے خلاف جرائم ۲۰۲۲۴ مقدمات درج کئے گئے ۔ ایک اندازے کے مئطابق ۴۳ لاکھ بچوں کو انتہائی جفا کشی سے زبردستی مزدوری کر وایا جارہا ہے ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۹۸ لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اسکول کا دروازہ تک بھی نہیں دیکھا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ بچہ مزدوری ہندوستان میںہے ۔ جن میں ۸۰ فیصد کار خانوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں ۔ غیر سرکاری اداروں کے تخمینہ کے مطابق ہندوستان میں بچہ مزدوری کی تعداد قریب ۶ کروڑ تک ہوسکتی ہیں ۔ آزاد انڈیا ڈاٹ کے مطابق ہندوستان میں ۱۰ ملین بچے گلیں میں کام کرتے ہیں جو کوڑا دان ، گداگری وغیرہ سے اپنا پیٹ پالتے ہیں ۔جرائم کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر آٹھ منٹ کے بعد ایک بچہ غائب ہوجاتا ہے ۔ جنسی درندگی بھی عروج پر ہے کہ یہاں ریپ کی شکار تین میں سے ایک بچہ بھی ہوتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ہندوستان کی صرف تیرہ ریاستوں ۴۸ ہزار ۳۳۸ بچوں کے ریپ کے معاملات درج کئے گئے ۔ ۲۰۱۲ ء میں ۱۲ ہزار ۴۴۷ بچوں کے جنسی استحصال کے معاملے درج کرائے گئے ۔اس کے علاوہ بچوں کو ہراساں اور چھیڑ چھاڑ کرنے کا سلسلہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ کئیر انڈیا نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۵۲ فیصد طالبات کو مردوں نے زبر دستی چھونے ،پکڑنے ،مروڑنے یا کاٹنے کی ہرکتیں کئیں ۔ چھیڑ چھاڑ کے یہ واقعات زیادہ تر بس اسٹینڈ، اسکول اور کالج کے راستے اور احاطے میں ہوئے ۔( روز نامہ انقلاب ،اکتوبر ،۲۶،۲۰۱۶)۔بچوں کا استحصال بھی ایک عالمگیر وبا ہے اور یہ پوری دنیا میں منظم طریقے سے ہورہاہے جس میں ہندوستان کے بچوں کی تعداد ۱۹ فیصد ہے جو ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ ۲۰۰۸ء میں بچوں کے استحصال کے ۵۷۴۹ کے معاملے درج کرائے گئے اور اب یہ تعداد ۵۰ ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے ۔اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ۲۰۱۲ ء میں ایک سائنسی دارے نے دہلی کے اسکولوں میں صحت منصوبے کے تحت ۱۲۳۴ ۱بچوں پر تحقیق کی گئی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ۱۲ فیصد بچوں میں نشے کی لت ہے ۔ ظاہر سی بات ہے یہ لت خود بخود نہیں لگ جاتی ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک ماحول اور ایک set upہوتا ہے جس میں بچوں کو آسانی سے بری عادتوں میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے ۔ Indian Times کے مطابق ہندوستان میں 3.32 کروڑ لڑکیوں کو ۱۸ سال سے پہلے ہی شادی کی گئی ہیں جن میں ۷ فیصد یعنی 9.54 لاکھ لڑکیاں زچگی کے دوران ہی فوت ہوجاتی ہیں ۔جہاں تک مقبوضہ کشمیر کی بات کی جائے تو اس وادی گلپوش میں بھی بچوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے ایسے بچوں کی ایک خاص تعداد ہے جن کی جانیں تک گئی ہیں اور ایک بڑی تعداد ان بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر ۱۵ سے ۲۲ سال کے درمیان ہے جو زخموں کی تاب نہ لاکر بھی بچ گئے گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ان کے جسمانی زخم بھر جائیں گے لیکن ان زخموں کے نشان رہ جائیں گے جو ان کو ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ ہمیں کس جرم کے عوض میں اور کن لوگوں کے ذریعہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔
بچوں کو جرائم کے دہلیز پر پہنچانے کے لیے انٹر نیٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا چلن عام کیا گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر فحش مواد رکھا گیا ہے ۔ اس کے ذریعہ ہے بچے جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں بچے جب یہ فحش اور اخلاق سوز سائٹس دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اور ان کے اعصاب پر برے اثرات پڑتے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں وہ آسانی سے نہ صرف جنسی جرائم کی طرف لپکتے ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو لپکایا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے ۱۱سال کی عمر تک اس سے کسی نہ کسی صور ت میں متعارف ہوچکے ہوتے ہیں گویا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتا ہے کہ بچوں پر جان بوجھ کر تشدد کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے ساز گارماحول بھی بنایاجاتا ہے جس سے بچے آسانی سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ گھر میں جب بچوں کو حد سے زیادہ ستایا جاتا یا ان پر تشدد کیا جاتا تو وہ دل برداشتہ ہو کر گھر چھوڑ دیتے ہیں یا ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان میں ۱۰ کروڑ سڑک چھاپ بچے پائے جاتے ہیں ۔
بچوں کے خلاف جرائم اور مظالم کے خلاف اگر چہ کچھ کوشش ہوتی ہیں لیکن وہ صرف کانفرنسوں تک محدود ہیں مثلا ۲۰۱۲ میں بچوں پر تشدد کرنے کے حوالے سے کولمبو میںایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مندر جہ ذیل تجاویز پیش کی گئیں ۔
۱۔ بچوں پر تشدد کے روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔
۲۔ادارہ اور کمپنیوں اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں پر تشدد کے خاتمہ کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں ۔
۳۔ بچوں کی تحفظ کے لیے مضبوط قانون ،پالیسیاں اور ضابطہ اخلاق بنایا جائے ۔
یہ تجاویز تو ٹھیک ہیں لیکن جرائم کے سد باب کے لیے گہرائی سے بات نہیں کی گئی ۔ یہ قرار دادیں جو ان کانفرنسوں میں پاس ہوئی ہیں بس یہ ایک روایت (formalties) ہے جس کو پر کیا جاتا ہے ۔ حقوق انسانی کے علمبردار وں نے بھی اس اہم مسئلہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ہے وہ بھی ہمیشہ چند قرار دادوں کے سوا آگے بڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے ہیں ۔ ان قرار دادوں سے صرف ان کے جیب بھر جاتے ہیں اوران کے بڑے بڑے دفاتر آسانی سے عام انسانوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔
دنیا میں تین طبقہ اس وقت زیادہ مظلوم ہیں (۱) مزدور طبقہ (۲)خواتین اور (۳) بے سہارا بچے ۔ ان تینوں طبقوں کو ظلم و تشدد سے نکالنے کے لیے اور فلاح و بہبود اور ان کی اصلاح و تربیت کے لیے کوشش کرنا اہم ترین اور ضروری کام ہے ۔ اسلام نے ان تینوں طبقوں کی نگہ داشت کرنے اور ان کے دکھ درد اور ان کی بہتر زندگی گزارنے کے لیے جد وجہد کرنے کی بے حد تاکید کی ہے ۔سماج پر امن اور صحت مند تبھی بن سکتا ہے جب اس میں مزدوروں ، یتیموں، بے سہارے بچوں ،حاجت مندوں اور مظلوم خواتین کا خاص خیال رکھا جائے ان کی مالی معاونت تعلیم اور تربیت اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے جد و جہد کرنا اسلام میں لازم ٹھہرا یا اس کے علاوہ بے سہارا بچوں کے غریب رشتہ داروں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا کہ ان کے حقوق ادا کئے جائیں اور ان کی تعلیم وتربیت کا نظم و نسق کیا جائے اگر قریبی رشتہ دار اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکے تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم و تشدد کے شکار بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی اچھی زندگی گزارنے کی بندو بست کریں ۔بچوں سے محبت اور شفاقت سے پیش آنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔ بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور انہیں محبت و شفقت کے ساتھ پیش نہ آنا قساوت قلب کے علامت ہے ۔
بچوں پر جرائم اور اسلام :
دور جدید میں گلوبلائیزیشن ، گلیمر اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے دنیا مزین ہوگئی ہے ۔ اس کے جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں منفی اثرات بھی لیس ہے ۔ آج کے اس سائبر کلچر نے گناہوں اور جرائم کو نہایت دلکش اور خوبصورت بنا کے پیش کیا ہے ۔ سائبر کلچر نے نت نئے برائیوں کو جنم دیا اور اس کے زریعہ دن بدن جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب سے اس کو اتنا آسان بنا دیا گیا ہر فرد کو اس تک رسائی آسان بنا دی گئی ہے ۔جہاں بالغ اور باشعور لوگ اس کے زد میں آجاتے ہیں تو وہیں بچے آسانی سے بھی اس کے شکار ہوجاتے ہیں ۔کہیں سے بھی اس کو کنٹرول کرنے یا یا سد باب کرنے میں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جائے جسے بچے اس کے جرائم سے محفوظ و مامون رہ سکیں؟۔ سب سے پہلے بچوں کو ایسا خوبصورت ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ گندگیوں اور برائیوں کی طرف لپکنے کی کوشش نہ کریں ۔ بچے اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جو بڑے کرتے ہیںاور وہ وہی اختیار کرتے ہیں جس کے آئینہ دار بڑے ہوتے ہیں ۔والدین اگر صاف ستھری زندگی اور پاکیزگی سے لیس ہوں تو اس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے ۔ بچے کو اگر کوئی بری لت لگ جاتی ہے تو محبت و شفقت اور تحفہ و تحوئف دے کر سمجھائے اور اگر تب بھی وہ ہٹ دہرمی اور ضد پر قائم رہے تو ضرورت پڑنے پر ہلکا سا سزابھی دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد بھی بچہ اگر کسی برائی یا شرارت سے باز نہ آئے تو اعتدال کے ساتھ اس کو چھڑی سے ضرب لگائی جاسکتی ہے ۔۔ بچوں کی اصلاح اور ان کی اخلاقی درستگی کے ذمہ داری اسلام نے والدین پر ڈالی ہے ۔ اگر والدین اور سرپرست اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سے مزین دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو پہلے خود باکردار اور بااخلاق بنا پڑے گا ۔ اہل ایمان پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو تعلیم و تربیت کا بھر پور اہتمام کریں تاکہ وہ دوام والی زندگی میں جہنم کی آگ سے محفوظ رہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ۔(التحریم :۶)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ ہم اپنے آپ کو بچاتے ہیں سو اپنے اہل و عیال کو کس طرح بچائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان کو ان امور سے روکو ، جن سے اللہ تعالی نے تم کو روکا ہے اور ان باتوں کا ان کو حکم دو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے۔( الجامع الاحکام القرآن)
والدین کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹیلی ویژن ،موبائل ،فیس بک اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال سے دور رکھیں ۔ کیوں کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے زرا بھر بھی غلط استعمال سے بچے بے حیائی اور اور بدکاری جیسی گھناونی حرکت میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اور کھلی اور چھپی بے حیائی کے باتوں کے قریب مت جاو ۔ ( سورۃالانعام : ۱۵۱)
فواحش کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں صرف بدکاری ہی شامل نہیں ہے بلکہ بدکاری ،بے حیائی اور فواحش کی تمام صورتیں اس کے معنی میں شامل ہیں ۔بچوں کو حرام ، بے حیائی اور جرائم سے محفوظ رکھنے کے لئے گھروں اور اسکولوں میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس سے بچوں کی فطری صلاحتوں کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ ان کو عفت وعصمت کی حفاظت اور پاک دامنی کے گر بھی سکھایا جائے ۔ ان میں خدا خوفی کا عنصر بھی پیدا کیا جائے ۔ اس کار عظیم کو صرف والدین اور اساتذہ ہی بہتر اندازسے انجام دے سکتے ہیں لیکن ان کو سب سے پہلے خود مثالی بنا پڑے گا ۔ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی محبت ، آخرت کا خوف اوراپنے آپ کا احتساب کرنا بھی سکھائے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے ،اس وقت میں تمہیں بتادو ں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو ۔ (لقمان 15:)
والدین کو خود بھی اور اولاد کو بھی صالح بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اے میرے بیٹے نماز کا اہتمام کر، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جہ مصیبت تمہیں پہنچیے اس پر صبر کروں بے شک یہ باتیں عظیمت کے کاموں میں سے ہیں ۔ (لقمان :۱۸)
اور مزید ارشاد ہے :
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کا اہتمام کریں ۔(طہ :۱۳۲)
تربیت جتنی اچھے ڈھنگ سے کی جائے اتنا ہی وہ بچے کے لئے مفید ہے ۔ تربیت ایک ڈھال ہے جو بچے کو ہر وقت فطرت پر قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے ۔تربیت میں میں عزت و اکرام بھی شامل ہے ۔ اللہ کے رسول نے اولاد کی عزت و اکرام کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے تاکہ انہیں غیرت ،احساس ذمہ داری ،خود داری ، ، حوصلہ اور باکردار زندگی گزارنے کا جوش وجزبہ ملتا رہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اپنی اولاد کی عزت کرو، اور ان کی بہتر تربیت کرو۔ ( سنن ابن ماجہ)
بچہ مزدوری اور اسلام :
بہت سے ناعاقبیت اندیش لوگ بچوں کو مزدوری پر لگاتے ہیں اور ان سے پر خطر کام لیتے ہیں جو ان کے بس اور طاقت میں نہیں ہوتا ہے ۔ بچوں کو آمدانی کا ذریعہ بنانا اور ان کو بنادی تعلیم و تربیت سے محروم کرنا انتہائی بے رحمی اور ظلم ہے جو ناقابل تلافی جرم ہے ۔ کیوں کہ یہی عمر ان کی شخصیت ان کی فکری و ذہنی نشونما کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے اس عمر میں اگر ان کی تعلیم و تربیت کرنے سے کوتاہی برتی جائے اور ان کی جسمانی نگاہ داشت اچھی طرح سے نہ کی جائے تو مستقبل میں یہی بچے قوم و ملت کے معمار بنے کی بجائے تخریب کار بن جائییں گے۔ بچوں سے مزدوری کروانااور ان کے مستقبل کو پامال کرنا خود غرضی کی انتہا ہے ۔بچہ مزدور دستور ہند کے دفعہ Fundamental Rightsمیں’’ استحصال سے محفوظ رہنے کا حق ــ‘‘Rights against Expolitation))کے عنوان کے تحت ایک شق یہ بھی ہے کہ ۱۴ سال سے کم عمر بچوں کو فیکٹریوں ، کانوں اور اسی طرح کی مزدوری کے دوسرے راستوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بچہ مزدوری میں ہر جگہ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ اسلام میں بچہ مزدوری یا بچوں کو کسب معاش کا ذریعہ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
اللہ تعالی تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہو۔ (البقرہ :۲۵۶)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں کیونکہ ان سے مشقت کا کام لینا جائز نہیں ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : اولا تکلفوا مایغلبھم(بخاری ، کتاب الادب)
اور ان کو ایسے کام کا حکم نہ دو جو ان پر غالب آجائے
ایک اور موقع پر اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا :بچہ پر کمائی کرنے کی مشقت نہ ڈالو اس لئے اگر وہ کبھی کمائی نہ کرسکے تو وہ چوری ضروری کریگا ظاہر سی بات ہے جب بچہ مشقت برداشت نہیں کرے گا تو وہ ضرور کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے گا جو اس کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بچوں سے متعلق تصرفات سے بھی روک دیا گیاہے اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا :تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے سوتے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے ، بچہ سے یہاں کہ وہ بالغ ہوجائے اور مجنون سے یہاں کہ اس کو عقل آجائے ۔ بچہ کی نگہداشت ، پرورش کرنا اور اس کے لباس و اخراجات کو برداشت کرنا ور باعزت زندگی گزارنے کا اہل بنانا والدین کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے
بچوں کی خرید و فروخت
بچوں کی خرید و فروخت بھی ایک بڑھتا ہوا جرم ہے جو اپنی جڑیں ہر جگہ مضبوط کررہا ہے یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے دنیا بھر میں بچوں کی خرید و فروخت ہورہی ہے اور ان سے مختلف قسم کے جبری کام لئے جاتے ہیں ۔ان سے جسم فروشی کی جاتی ہے بچوں کی چوری اسمگلنگ اور دھو کہ دہی سے بچوں کو گود لینا بھی اس کی ایک شکل ہے ۔ آئے روز اغوا کاری کے حادثات رونما ہوتے ہیں بچوں کے جسمانی اعضاء فروخت کرنے کے لیے ان کو اغوا کیا جاتا ہے یہ سفاکانہ واردات بھی بڑتی جارہی ہیں بچوں کی چوری ، اغوا اور اسمگلنگ کے بارے میں کچھ قوانین بھی بنائے گئے ہیں لیکن نتیجہ ندارد ۔ یہاں پر اسلام اہم رول ادا کرسکتا ہے اگر اس کی تعلیمات پر غور کیا جائے اور ان کو عملا یا جائے تو انسانی وبا آسانی سے ختم ہوسکتی ہے اللہ تعالی ہے ہر انسان کو معزز بنایا ہے اور اس کی تکریم کرنا ہر ایک پر واجب ٹھہرایا ہے اس کو ناحق قتل کرنا گناہ کبیرہ ہے اسی طرح سے اس کی خرید و فروخت چاہے وہ چوری ڈاکہ زنی اور دھوکہ دہی سے ہو یا برضا و رغبت ہو اس کی اسلام میں قطعا اجازت نہیں ہے اور اس کو فعل مذموم اور حرام قرار دیا ہے
قتل اولاد
قتل اولاد بھی ایک بڑی سماجی برائی ہے ۔مختلف آلات کے ذریعے سے شناخت کرکے بچیوں کو رحم مادر میں ہی دفنا دیا جاتا ہے او ر ان کو دنیا کی ہوا کھانے تک کا موقع نہیں دیا جاتا ہے قتل اولاد ایک سنگین جرم ہے اوریہ بہیمانہ جرم بڑی ڈھٹائی سے دیا جاتا ہے۔ اس جرم کے ارتکاب میں ہندوستان سر فہرست ہے اور یہ اس جمہوری ملک میں آسانی سے ہورہا ہے۔ نوبلانعام یافتہ کلاش ستیارتھی کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ
“How can we claim to be the largest democracy in the the world , when our children are deprived of their right to ply and enjoy childhood ?”
ہندوستان میں بچیوں کے رحم مادر میں قتل کئے جانے کے واقعات میں بہت تیزی آرہی ہے۔ ۲۰۱۱ء مردم شماری کے مطابق ۶تا ۸ سال تک کی بچیوں کا آبادی میں نمایاں فرق آیا ہے۔ اسلام میں قتل اولاد سے واضح طور پر منع کیا ہے اور اس بھیانک جرم سے باز رہنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ـــہے :
لاتقتلوا اولادکم من املاق (الانعام : )اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :غربت کے ڈر سے اولا د کو قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل بڑی غلطی ہیں ۔ (بنی اسرائیل :۳۱)ایک اور جگہ پر قرآن مجید میں شدید الفاظ میں اولاد کو ضائع کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعا لی ہے :
وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں موت گھاٹ اتار دیا ۔