کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیراحمد قاسمی
 سوال:۔ آج کے دورن میں آسائش حیات کے لئے بے شمار و سائل مہیا ہیں مگر یہ بھی ایک  مسلمہ حقیقت ہے کہ طرح طرح کی پریشانیاں بھی درپیش  ہیں۔ اُن میں سے ایک بڑی پریشانی قسم قسم کی بیماریوں کا سیلاب ہے۔ بیماریوں کے ا س تشویشناک پھیلائو کے ساتھ علاج معالجہ کا مہنگا پن مزید پریشانی کا مزید سبب ہے۔ اس میں کئی ڈاکٹر صاحبان کا رویہ بعض اوقات ظالمانہ حد تک  سامنے آتا ہے۔ وہ بیماروں سے قمیں اینٹھنے کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ پتھالوجی لیب اور فارمیسی کے مخصوص سٹوروں سے کمیشن لینے اور دوا ساز کمپنیوں سے بڑے بڑے تحفےبلکہ بیرونی ممالک سیر سپاٹے کےلئے قمیں لینے کا سلسلہ ا س پیشے کا حصہ بن چکا ہے اور اس کا پورا اثر بیماروں پر ہی پڑتا ہے۔ اب سوال ہے کہ کمیشن کے لالچ میں غیر ضروری ٹیسٹ کرانا، مخصوص لیب کا پتہ بتاکر اُنہی کا ٹیسٹ ماننا اور اُس لیب سے کمیشن لینا، اسی طرح دوا ساز کمپنیوں سے تحفے لے کر صرف انہی کی تیار کردہ ادویاتبیماروں کو سپلائی کرانا اور کمپنی سے وہ فائدہ اٹھانا جو بالآخر مریض پر ہی بوجھ بنتا ہے، اسلام کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے۔چونکہ میں خود میڈیکل شعبہ سے وابستہ ہوں اس لئے  اس پیشے کےاندر کے حالات سے واقف ہوں اور میرا بیٹا بھی ایک اچھا ڈاکٹر ہے اور وہ کمیشن کے متعلق بہت محتاط ہے مگر اپنے کئی ساتھیوں سے اُسے دقیانوسی ہونے  کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ بہر حال سوال کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیکر رہنمائی فرمائیں تاکہ بہت سارے حق پسند افراد کےلئے آنکھیںکھلنے کی  اُمید پیدا ہو؟
امتیاز احمد وانی
  بمنہ، سرینگر
پیشہ طب۔۔۔۔۔۔ فیس لینا جائز کمیشن حرام
جواب:۔ جب کوئی ڈاکٹر کسی بیمار کا ملاحظہ کرکے اسکی بیماری کی تشخیص نہ کر پائے اور اس لئے اُسے مختلف قسم کے ٹیسٹ کرانے کی واقعتہً ضرورت ہو تو ایسے بیمار کو ٹیسٹ کرانے کی تجویز دینا درست ہے۔ اب لیب والا اپنی فیس کے علاوہ اگر بیمار سے مزید کچھ رقم لیتا ہے اور وہ زائد رقم ڈاکٹر کو بطور کمیشن دیتا ہے اور لیب والے کا یہ رقم لینا بھی اور ڈاکٹر کو دینا بھی حرام ہے اور ڈاکٹر کا یہ رقم قبول کرنا بھی مال حرام ہے ۔ اگر پہلے سے ہی یہ طے کر رکھا ہو تو یہ اور بھی جرم ہے۔ اگر ڈاکٹر نے مریض کا ملاحظہ کیا اور بیماری کی تشخیص ہوگئی پھر بھی صرف اپناکمیشن لینے کےلئے مریض کو ٹیسٹ کرانے کا حکم لکھا تو یہ مریض کے ساتھ دھوکا او رفریب بھی ہے اور اس کے ساتھ کمیشن لیا گیا وہ بھی حرام ہے۔
اس طرح کوئی ڈاکٹر اگر مریض کو کسی مخصوص سٹور سے دوا خریدنے کا حکم کرے اور مقصد یہ ہو کہ اُس سٹور پر صحیح اور معتبر کمپنیوں کی درست دو املتی ہے تو ایسی صورت میں معتینہ سٹور سے دو ا لینے کی تجویز درست ہے لیکن کسی فارمیسی یا میڈیکل سٹور سے دو الینے کا حکم اگر اس لئےدیا گیا کہ اس سٹور سے کمیشن لیا جائے تو یہ مریض کا استحصال ہے، مالی ظلم ہے اور دھوکہ دے کر بذریعہ میڈیکل سٹور مزید رقم کھینچنا ہے۔ بلا شبہ یہ مزید رقم ڈاکٹر کےلئے حرام ہوگی۔ ا سکے درست ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض کو ملاحظہ کرنے کےلئے جو وقت صرف کرتا ہے اس کی مناسب اور جائز فیس لے کر اب کسی لیب یا فارمیسی سے کمیشن لینے کا کوئی جواز نہ عقلی طور پر ہے نہ طبی اخلاقیات کی رو سے درست ہے اور شرعی طور پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ فقہ کی مشہور کتاب فتاویٰ شامی میں ایک اصول یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے دوسرے شخص کو کسی کے پاس پہنچانے یا کسی جگہ تک پہنچنے کی رہنمائی کی یا مشورہ دیا تو اس پر کوئی معاوضہ لینا باطل ہے۔ یہ کمیشن اسی زمرے میں آتا ہے۔ ڈاکٹر جب کسی مریض کو کسی مخصوص لیب یا مخصوص میڈیکل سٹور کی رہنمائی کرتا ہے۔ اگر اس پر وہ ڈاکٹر خود مریض سے کوئی رقم طلب کرے تو یہ بھی باطل ہے۔ یہاں ڈاکٹر خود نہیں لیتا بلکہ لیب یا سٹور والے کے ذریعہ مریض سے رقم لی جارہی ہے ۔ یہ بھی باطل ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے(ترجمہ)اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو۔
حدیث میں ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال لے لےاُس کی قلبی رضامندی کے بغیر ۔بہر حال ڈاکٹر صاحبان کا یہ کمیشن لینا مریضوں پر ظلم بھی ہے اُن کی مجبوری کا غیر شرعی غیر اخلاقی استحصال بھی ہے اور وہ رقم بھی اُن کےلئے حرام ہے۔ خود کی وہ فیس جو پرائیوٹ کلینک پر لی گی وہ جائز ہے ۔اس کے علاوہ کمیشن کے حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں اور یہ خود طبی اخلاقیات کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔
سوال:۔ ڈاکٹر ی کا پیشہ ایک بہت معزز پیشہ ہے اور یہ ڈاکٹر ہی بے بس بیماروں کے لئے مسیحا ہو تاہے ، مصیبت زدہ بیماروں کا غمخوار معالج ہوتا ہے ۔آج کل میڈیکل کی دنیا کا جو حال ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر ہیں جن کا کردار ایک مثالی اور شفقتوں سے بھر پو رمریضوں کے لئے رحمت ہوتاہے اور ایسے بھی کچھ ڈاکٹر صاحبان ہیں جن کے متعلق کچھ کہنا تکلیف دہ ہے کہ وہ بہت غلط ہیں۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ڈاکٹر کیسا ہونا چاہئے او رکن باتوں سے بچنا چاہئے میڈیکل سٹور میں جو خراب دوائیاں ہیں اُن کے سدباب کے لئے ہم کو اور ڈاکٹر صاحبان کو غیر انسانی غیر اخلاقی حرکات سے دور رکھنے کےلئے کوئی اچھا کارگر لائحہ عمل تجویز کیجئے؟
ڈاکٹر نجم الحق،ڈاکٹر مجیدحسن،ڈاکٹر نثار احمد سرینگر
ڈاکٹری کا پیشہ ایک عظیم عبادت مگر ظلم سے اجنتاب لازم!
جواب:۔ ڈاکٹریعنی معالج معاشرے کا وہ اہم ترین فرد ہوتا ہے جو خدمت خلق کا عظیم کام انجام دیتا ہے اس لئے اگر وہ صالح جذبہ اور مخلوق انسانی کو راحت پہنچانے کی نیت سے علاج معالجہ کرے تو بلا شبہ وہ ایک عظیم عبادت انجام دینے والا قرار پائے گا۔ حضرت نبی کریم ﷺ  کا ارشاد ہے کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ انسان ہے جو لوگوں کو نفع و راحت پہنچائے۔ دوسری حدیث میں ہےکہ  مخلوق اللہ کا عیال ہے اسلئے لوگوں میں اللہ کی نظر میں سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے جو اُس کی عیال کے ساتھ حسن سلوک کرے ۔ ان دونوں حدیثوں کا بہترین مصداق بننا ڈاکٹر اور معالج کےلئے سب سے سہل ہے۔ لیکن اگر کوئی ڈاکٹر اپنے اس اہم ترین پیشہ کو ظلم، استحصال اور حصول دولت کا ذریعہ بنائے تو پھر یہی ڈاکٹر مریض انسانوں پر طرح طرح کے ایسے ظلم کرتا ہے کہ مریضوں کو عموماً اس کا پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ ظلم کا شکار ہوتاہے ،لٹتا ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی ڈاکٹر مریضوں کو قسم قسم کے ٹسٹ اس لئے کرائے تاکہ ا س کو کمیشن ملے۔ یا کوئی ڈاکٹر ضرورت اور حق سے زیادہ فیس وصول کرے۔ یا کسی مقررہ خاص میڈیکل سٹور سے دوائی لینے کی تلقین کرے جہاں سے اُسے کمیشن لینا ہو یا بلا ضرورت کسی مریض کو وہ دوائی نسخہ میں لکھے جس پر دوا ساز کمپنی سے اُسے کوئی بڑا تحفہ لینا ہو،یا کوئی دوا ساز کمپنی کسی ڈاکٹر کو آفر کرے کہ ہماری دوائی اتنی مقدار کی فروخت کرا دو ہم سیر و تفریح کےلئے فلاںملک کو بھیجیں گے۔ بلکہ کوئی کمپنی یہ پیشکش کرے کہ ہم ڈاکٹر کو عمرہ کا خرچہ دیں گے ہماری دوائی اتنے لاکھ تک مریضوں کو استعمال کرادو۔ ایسی پیشکش کو پورا کرنے کےلئے ہر مریض کو اس کمپنی کی وہ دوائی لکھے جو اس مریض کے مرض کےلئے ہوتی ہی نہیں۔ غرض کہ اس طرح کے نہ جانے اور کتنے حربے ہوسکتے ہیں جو ڈاکٹرصرف اپنی مادی ہوس او رحصول زر کی نہ ختم ہونے والی پیاس بجھانے کےلئے اختیار کرسکتا ہے۔ یہ سب اس وقت ہوگا جب نہ خوف خدا ہو نہ اخلاقی رمق باقی ہو۔ شرعی طور پر یہ ظلم بھی، استحصال بھی اور حرام ذریعہ سے دولت کمانے کا کام بھی۔ خود میڈیکل سائنس میں جو طبی اخلاقیات مقرر کئے گئے ہیں یہ اُن کے بھی خلا ف ہے۔ مگر جب انسان خوف آخرت سے خالی ہو، اللہ کے مواخذہ سے غافل ہو، ظلم کو ظلم نہ سمجھے، حصول دولت کو ہی مقصود بنالے،مریض کی بے بسی پر رحم کرنے کے بجائے اس سے رقم کھینچنے کو اپنا مطمح نظر بنالے تو پھر اُسے ان تمام ظالمانہ حرکتوں سے نہ اُس کا ایمان ،نہ انسانیت کا جذبہ ،نہ کوئی اخلاقی حسن، نہ معاشرتی اقدار اور نہ ہی موت کا ڈر روک پاتا ہے۔ جو ڈاکٹر صاحبان اس ہوس زر کی بیماری کا خود شکار ہو وہ مریضوں کا شکار کرتے ہیں۔ اس لئے اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہر ہر شہر کے ڈاکٹر صاحبان اپنی ایک تنظیم بنائیں اور طبکے اس قیمتی شعبہ میں جو اخلاقی معاشرتی اور انسانی اقدار کی پامالی کے کام ہو رہے اُس کو روکنے کی کامیاب سعی کریں ۔ ایک ضابطہ اخلاق وضع کرے اور دوا ساز کمپنیوں، دوا فروش فارمیسیوں او ر طبی عملہ کو اسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنائیں اور جو اس کی خلاف ورز ی کرے توہمت اور جرأت سے اس کو نامزد کرکے بلیک لسٹ کریں۔ اپنے اند خوف آخرت انسانیت نوازی اور اخلاقی حس پیدا کرے۔ اسی لئے اسلامی حکومت میں بھی اس طرح کے ظلم کو روکنے کےلئے کئی طرح کے اقدام کرنے کی مملکت اسلامیہ کے خلیفہ یا سربراہ کو حق ہے۔ اگر ایمان پختہ ہو ،ضمیر بیدار ہو، اخلاق واحساس زندہ ہو، مفلوک الحال مریضوں اور غمزدوں پر رحم کا جذبہ ہو او راپنے پیشہ کو خدمت خلق کا ہی پیشہ برقرار رکھنے کا داعیہ ہو تو پھر کسی قانون کی ضرورت نہ ہوگی۔
س:۱- خودکشی کرنا کتنا سنگین جرم ہے ؟
س:۲-اگرخدانخواستہ کسی نے ایسا ناپاک عمل کرلیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی کیا صورت ہوگی ؟
س:۳- ایک غریب آدمی ، جس کی ماہانہ آمدنی نہایت ہی مختصر یعنی دو تین ہزار روپے ہو اورسرکارکی طرف سے جنگل سے لکڑی (بالن) کاٹنے کی اجازت نہ ہو، تیل خاکی اور رسوئی گیس کی مناسب دستیابی بھی میسر نہ ہو، کیا اس کے لئے چوری سے بجلی کا استعمال کرنادُرست ہے؟
س:۴- میں محکمہ بجلی کا ملازم ہوں ۔ سرکار کے ساتھ زبردست وفاداری دکھانے کے لئے لوگوں کے گھروں کو چیکنگ کرتاہوںاوراپنے گھرمیں بجلی کا بے تحاشہ استعمال کرتاہوں ۔کیا کل کو مجھے بارگاہِ خداوندی میں اس بارے میں پوچھ ہوگی ؟
ایم جمال
خودکشی کرنا سخت ترین حرام
جواب:۱-خودکشی کرناسخت ترین حرام کام ہے ۔ حدیب میں ہے کہ جس شخص نے خودکشی کی وہ قیامت تک اُسی عذاب میں مبتلارہے جس سے اُس نے خودکشی کی ہو۔غزوہ خیبر میں حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ایک شخص کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ جہنم میں جائے گا ۔ حالانکہ وہ شخص بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہاتھا۔ اس لئے صحابہؓ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہوئی کہ اس شخص کے جہنمی ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے اُس شخص کی صورتحال جاننے کے لئے اس کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ اُس کو ایک معمولی زخم لگ گیا ۔ اس پر اُس شخص نے اپنی تلوار سے خودکشی کرلی ۔ وہ صحابیؓ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں شخص کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھاکہ وہ جہنم میں جائے گا ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بچے رسول ہیں ۔میں نے آپ کا ارشاد سچ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس شخص نے خودکشی کرلی۔ (بخاری، خیبرکابیان)\
حضرت خبّابؓ بن الارت ایک عظیم صحابی تھے ۔پیٹ کی ایک سخت تکلیف میں مبتلا تھے ۔ سالہا سال یہ تکلیف جھیلتے رہے اور باربار وہ دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوکر عرض کرتے تھے کہ مجھے خودکشی کی اجازت عنایت ہو۔ مگر حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ہمیشہ سختی سے منع کیا۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ خودکشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا یقیناً جہنم میں جائے گا۔ یہ وہ بدترین جُرم ہے کہ اس کے بعد توبہ و استغفار کا موقعہ بھی نہیں رہتا۔
جواب:۲- خودکشی کرنے والے کو بغیر جنازے کے دفن کرنا جائز نہیں ہے ۔اس لئے اُس کے گھر والوں اور رشتہ داروں پر لازم ہے کہ وہ اُس کا جنازہ ضرورپڑھیں ۔
جواب:۳-چوری کی بجلی استعمال کرنا جائز نہیںچاہے غربت کی وجہ سے چوری کی جائے یا کسی اور وجہ سے ۔
جواب:۴- جس محکمہ میں ملازمت کی وجہ سے جس کام کی ڈیوٹی ہے اُس کو پورا کرنا ضروری ہے اور خود بھی قانون کی پابندی لازم ہے۔ دوسروں کی چیکنگ دُرست ہے مگرخود بجلی کا بے تحاشہ استعمال حرام ہے ۔اس لئے محکمہ بجلی کے قانون کوجیسے دوسروں کے لئے نافذ کرناضروری ہے ویسے ہی اپنے لئے بھی اُس پر عمل کرنا لازم ہے ۔
یہ بدترین خیانت ہے کہ خود تو قانون کی خلاف ورزی کریں او ردوسروں پر وہی قانون لاگو کریں۔ جس محکمہ کی تنخواہ لی جائے اُس محکمہ کے قانون کو اپنے اوپر نافذ نہ کرنا خیانت بھی ہے اور قانون توڑکربجلی یا کسی اور چیز کا استعمال حرام بھی ہے ۔