خدمت انسانیت اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

خورشید عالم مدنی ،پھلواری شریف ،پٹنہ ،رابطہ:9934671798

دین اسلام زندگی کے تمام گوشو ںسے متعلق زریں اصول اور روشن ہدایتیں جاری کرتاہے اور زندگی کے تمام مسائل و مشکلات کا بہترین حل اور مناسب علاج پیش کرتاہے۔وہ ایسا مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں زندگی کی سب سے کامل و محفوظ تصویریں جلوہ گر ہو۔ جس معاشرہ میں کمزوروں کو سہارا دینے، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں افراد معاشرہ کے حوصلے بڑھانے کا رواج اور چلن ہو۔ وہ سماج کے کمزور طبقات کی خدمت و تعاون کو مختلف اندازاور حکیمانہ اسلوب میں پیش کرتا ہے ۔ اگرطبقاتی کشمکش میں مبتلا اور دیگر مذاہب و ادیان کے مظالم کی شکار انسانیت اسلام کے ان گرانقدر اصولوں کو گلے لگا لے تو وہ ہر قسم کے مشکلات و آلام سے نکل سکتی ہے اور وہ معاشرہ خیر و فلاح ، سعادت و کامرانی کا گہوارہ بن سکتا ہے اور انسانیت کے اجڑے گلشن میں باغ و بہار آسکتی ہے۔
خدمت انسانیت یہ اسلام کا طرئہ امتیاز اور مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے۔ یہی ہماری شان اور ہمارا شعار ہے اور یہ امت خدمت انسانیت کے لیے ہی برپا کی گئی ہے ۔ ”کنتم خیرا¿مة اخرجت للناس “(آل عمران :110) اسلام نے اسے عین عبادت قرار دیا ہے۔ ”اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاﺅ“(الحج:77) اس آیت میں رکوع و سجدہ سے مراد نماز حق اللہ ہے اور ”خیر“سے مراد اللہ کے بندوں کی خدمت ہے، یہ دونوں چیزیں عبادت میں شامل ہیں۔ قرآن کریم نے اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے ”وفی اموالھم حق للسائل و المحروم“(الذاریات:19)یعنی ان کے مالوں میں اس سائل کا حق ہے جو اپنی محتاجی کا اظہار کرکے مدد کا خواستگار ہے اور ان محتاجوں کے بھی جو زبان سے اظہار نہ کرسکیں۔
جہنمی دخول جہنم کی ایک وجہ خدمت انسانیت سے غفلت بتائیں گے۔ وہ جواب دیںگے ”ہم نمازی نہیں تھے اورنہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے“(مدثر:43-44) خدمت انسانیت کے پیش نظر اسلام نے زکوة کا ایک پورا ضابطہ اور چارٹ عنایت کیاہے۔ یہ نظام زکوة ایک عظیم عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم ترین معاشی و اصلاحی پروگرام ہے ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ اگرسماج کے کچھ لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہیں تو انہیں بے بسی و بے کسی کے بھنور سے نکالا جائے ۔ان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کی جائے۔امیری و غریبی کی کھائی کو خلوص و محبت کے راستے سے پاٹنے کی کوشش کی جائے۔ یہ نظام سماجی و انسانی خدمات کا منبع ہے ۔اس لیے قرآن میں جہاں صلوٰة کا حکم ہے وہاں زکوٰة کا بھی حکم ملتا ہے۔ جہاں اللہ کی بندگی کا مطالبہ ہے وہاں انسانوں کی راحت رسانی کا بھی تقاضا ہے۔
اس طرح اسلام نے سماجی خدمات کے پیش نظر نظام اوقات قائم کیا ہے۔ یہ انسانی خدمت کی تاریخ میں ایک نیا تصورتھا جو رسول رحمت نے دنیا کو دیا ۔یہ اوقات ایک صالح معاشرہ کی عمارت کو مضبوط و مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے اوراس کے ذریعہ سماج کے دن مردہ میں زندگی کی لہر دوڑائی جاتی ہے۔ اس اسلام نے اپنے متبعین کو ”صدقہ جاریہ“ کرنے کی ترغیب دی تاکہ اس کافیض عام لوگوں تک پہنچے اور کوئی بھی معاشرہ سماجی اور معاشی طور پر مضبوط، خوشحال اور خوبصورت نہیں کہا جاسکتا ہے اگر اس معاشرہ کے کمزور، محروم و معذور طبقوں کے حقوق ادا نہ کئے جائیں اور وہ کمزور افراد اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصورنہ کریں۔ ایسے افراد کے حقوق کی نگہبانی اور ان کی کفالت کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ جس کی ادائیگی کی تاکید اسلام اپنے ماننے والوں سے کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقر اءومساکین کی امداد و اعانت، ان کے ساتھ خصوصی طور پر احسان کرنے اور عمومی صدقات و خیرات کی باربار تاکید کے ساتھ رسول گرامی یہ حکم دے رہے ہیں ”بھوکے کو کھلاﺅ، مریض کی عیادت کرو اوراگر کسی کی گردن قرض کے بوجھ سے پھنس چکی ہے تو اسے اس بھنورسے نکالو“ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے کمزوروں کے ساتھ خیرخواہی، حسن سلوک کا مظاہرہ کریں، ان کے فقراءو محتاج کو مستقل طور پر ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ معاشرے میں باوقار اور اطمینان کی زندگی گذار سکیں۔ آپ نے فرمایا”بیواﺅں اور مسکینوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا مجاہد ہے“ (بخاری:5353) اس سے مراد و ہ ساری کوششیں ہیں جوان کی فلاح وبہبود کے لیے کی جائیں، ان میں ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے روزگار فراہم کرنا اور ان کو سماج میں باعزت زندگی گذارنے کے قابل بنانا وغیرہ سب کچھ آتا ہے۔
اسلام میں خدمت خلق یہ ہے کہ جن افراد پر ظلم ہو ان کی مدد کی جائے ۔حضرت براءبن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیاان میں ایک بات یہ تھی کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔ (بخاری:6222) مظلوم کی مدد کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں ،معاشی بھی ،قانونی بھی اور اخلاقی بھی تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ وہ سوسائٹی میں تنہا نہیںہے بلکہ اس کے ساتھ ایک ایسی جماعت ہے جس کے سینے میں دھڑکتا دل ہے۔ یہ اسلام صرف اپنوں کو ہی نہیں نوازتا بلکہ اپنے نہ ماننے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے جس طرح یمامہ کے گورنر شمامہ بن اثال کے ساتھ آپ نے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، ابو سفیان کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اعلان کردیا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لیے بھی معافی کا اعلان ہے (مسلم: 4622)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حراءسے واپس لوٹے اوراپنی بیوی حضرت خدیجہ سے غار میں پیش آنے والے واقعہ کی اطلاع دی اور فرمایا”مجھے تو اپنی جان کا خوف ہوگیا ہے“اس موقع پر انہوں نے آپ کی ڈھارس بندھائی، اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا،بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا، آپ تو خدمت خلق کرتے ہیں اور جو بھی ایسے اوصاف حمیدہ کا مالک ہوتا ہے وہ اللہ کے لطف وعنایات کا مستحق ہوتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی انسانی خدمات تاریخ انسانی کے روشن ابواب ہیں۔ کمزوروں کو خرید کرآزاد کرنا، بیوہ عورتوں کی بکریاں دوہنا، بوڑھے، اپاہج کا سالانہ وظیفہ متعین کرنا اور صبح کے اندھیرے میں اندھی، بوڑھی عورت کی غلاظت صاف کرنا آپ کاحسن عمل تھا۔یہ حضرت عمر فاروقؓ ہیں جو غرباءو مساکین اور ضرورت مندوں کے تعاون کے لیے ”بیت المال“ قائم کررہے ہیں اور جنہوں نے بلا اختلاف و لحاظ مذہب، اپاہج ،اندھے ،لنگڑے، معذوروں اور شیر خوار بچوں کے وظائف متعین کیا۔اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے، کنویں کھدوائے، مدینہ میں لنگرخانہ بنوایاا ور 18ھ میں جب عرب میں سخت قحط پڑا تو زبردست ریلیف کا انتظام کیا ،راتوں میں گشت لگا کر رعایا کے احوال دریافت کئے۔
دوسروں کے کام آنا،ان کو فائدہ پہنچانا، ان کی خدمت کرنایہ شیوہ پیغمبراں،صفت انبیاءہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ان کے کھانے پینے کا ساز و سامان فراہم کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب مدین کے کنویںپر پہنچے توان دو بچیوں کی مدد کی جو کنویں کے پس کھڑی تھی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کی فکر کریں، ہماری پہچان انسانیت کے بہی خواہ و خیر نواہ کی حیثیت سے ہو، ہمارے اندر خدمات انسانیت کی ایسی ترپ موجود ہو کہ سماج کا وہ فرد ہمیں اپنا مونس و غمخوار سمجھے، اگرہم نے انسانیت کی فکر چھوڑ دی تو ہم خیر امت کہلانے کے مستحق ہر گز نہیں ہوسکتے شاعر کہتا ہے:ترجمہ ” لوگوں کے ساتھ احسان کرو تم ان کے دلوں کو اپنا غلام بنالو گے“ احسان کے ذریعے ہی انسان کوغلام بنایا جاسکتا ہے۔