قرآن کا ایک گمنام داعی

الطاف جمیل ندوی سوپور کشمیر
 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یوں تو تحریک اسلامی جموں وکشمیر نے اپنی صفوں میں کتنی ہی متاثرکن شخصیتیں بہ حیثیت داعیان دین و مدرّسین پیدا کیں جو ذاتی اوصاف اور نجی خصوصیات کے اُجالوںسے مختلف شعبہ ہائے زندگی کو روشن کر گئیں اور ایک ذات کے قالب میں ہونے کے باوجوداپنے آپ میں ایک انجمن ثابت ہوئیں ۔ ان شخصیات کا صرف اپنے جذبۂ صادقہ اور حق پرستی کے بل پر پُر خار وادی میں نامساعد حالات کے باوصف آبلہ پائی کر نا فی ذاتہٖ ان کے واسطے دلیل کمال ہے۔ اسی قافلہ ٔ سخت جان میںاعلیٰ صفات کے پیکر اورمجسمۂ اخلاق میرے عزیز ترین رفیق ،تحریک اسلامی کے گمنام داعی ماسٹر بشیر احمد بھی بہ شان وشوکت شامل ہیں ۔ ۱۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کو غلام محمد ڈرا ساکن ا شموجی کولگام کے گھر میں پیدا ہونے والا یہ بچہ چلتے چلتے دینی جذبات سے معمور شخصیت کے حسین سانچے میں ڈھل گیا ، حالانکہ گھر میں روایتی عقیدے اور خرافاتی سیاست کا غلبہ تھا لیکن ان چیزوں سے بچ بچاکر کبھی کبھی ا یسا بھی ہوتاہے کہ بت کدۂ آذری میں مزاجِ خلیلی پروان چڑھتاہے۔ بشیر صاحب گھریلو ماحول کے علی الرغم زمانہ طالب علمی سے ہی دینی غیرت و حمیّت سے لبریز تھے ،خودار و بے باک تھے اور ساتھ ہی ساتھ تیز ذہن طالب علم تھے۔گھر کے مزاج اور ماحول کے بالکل اُلٹ میں بچپن میں ہی موصوف کی وابستگی تحریک اسلامی کے ساتھ ہو گئی۔ایک دن شوپیان کے نگاہ ِ مردمومن رکھنے و الے مولانا غلام احمداحرار ؒ کی آمد ماسٹر صاحب کے گاؤں میں کیا ہوئی کہ مرحوم ڈار صاحب سرتاپا اسلام کے قالب میں ڈھل گئے ۔ تب آپ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ۔مولانا احرار ؒ کی داعیانہ حق گوئی بشیر صاحب کے قلب سلیم میں سرایت کر گئی اور ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے وہ ہمیشہ کے لئے تحریک اسلامی کے ہو کر رہ گئے۔
ایک گمنام داعی جو کہ ُاستادی کے پیشے سے وابستہ تھا، اپنے دینی مزاج اور تحریکی سرگرمیوں کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ یہ اپنی ذات میںایک اُنجمن تھے ۔ کسی بھی محفل میں آکر اسلام اور تحریک کی جانب موضوع ِ گفتار بدلنے کا فن آپ بخوبی جانتے تھے۔جہاں کہیں جاتے اسلامی تعلیمات پر بات ضرور کرتے تھے۔ہنس مکھ ، بذلہ سنج، شرافت ، دیانت،سادگی کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھے ۔ آپ تحریک اسلامی کے ایسے صالح مزاج اور پر وقار کارکن تھے جس کے اَنگ اَنگ میںاہل اسلام کی دردمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ اپنی ا سی خصوصیت کے باعث انہوں نے نوے کے ما بعد اپنی بیش تر زندگی ظلم و ستم کے سائے میں گزاری کیونکہ حق بولنا اور حق کی بات منوانا حریفان ِحق سے کہاں برادشت ہوسکتا ۔ بنابریںآپ جسمانی و ذہنی اذیتوں کے ایسے ایسے مراحل سے گزرے کہ جہاں انسان کو اللہ کے بعد صرف ایمانی قوت ہی سہارا دے سکتی ہے۔ وقت کے جابروں نے کبھی انہیں زیر حراست الیکٹرک شاکس سے نیم مردہ کر کے سر راہ چھوڑدیا اور کبھی افراد خانہ کے سامنے انہیں زیر عتاب وعذاب کا نشانہ بنایا ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار کہا: کچھ اخوانیوں ( مسلح خونی اورلٹیرے ) نے مجھے مارنے کی ٹھان لی ، مجھ پرگولیاں بھی چلائیں،میں نیچے گر بھی گیا مگر مرا ہی نہیں بلکہ زندہ رہا ، اور اب بھی میں زندہ ہوں !زندہ ہونے کا احساس مجھے تب ہوا جب کچھ لوگوں نے مجھے اٹھاکر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ماسٹر جی کو حق گوئی کے الزام میں انتہادرجہ کی کن اذیتوں اور تکالیف سے گزارا گیا ، قلم میں وہ رُوداد بیان کرنے کا یارا نہیں۔۱۹۹۵ء کے بعد تو انہیں گھر سے ایسا بے گھر کیا گیا کہ ایک پل بھی گھر نہ جا سکے۔ اس دوران مرحوم کی زوجہ تاج آپا پر کیا کیا بیتی وہ ایک الگ داستان ِ الم ہے۔ماسٹر جی کااپنے بچوں کے ساتھ گھر گھر ٹھوکریں کھانا اور بے بسی و بے کسی کی ایسی مارسہنا کہ بڑے سے بڑا دل گردے والا بھی غش کھا جائے ! والد کو بچوں کی خبر نہیں اور بچوں کو والد کاپتہ نہیں۔ اسی پس منظر میںماسٹر صاحب حالات کے دباؤ میں آکر دوسرے شہروں کی خاک چھانتے رہے ۔ایک لمحہ بھی سکون میسرنہ تھا کہ دوپل انپوں کے درمیان گزاریں ،دو باتیں اپنوں سے کر لیں ۔ غرض تحریک اسلامی سے وارفتگی کی حد تک بے لوث لگاؤ کے عوض انہیں جلاوطنی اور بے خانما ہونے کی ایک ایسی سختی جھیلنا پڑی کہ شاید غم کے ان طوفانوں بھی جرأت وہمت ہار جاتے۔اپنوں سے جدائی کا غم ،بیوی بچوں سے فرقت کا درد ، بہن بھائیوں کی محبتوں سے محرومی کے باوجود تن تنہا راہ ِ عزیمت پر بدستور چلتے ہوئے کسی اجنبی شہر میں جا رہنا اور طرح طرح کی دشواریوں کا دلیرانہ سامنا کر نا ، یہ بس دیدہ وروں کا ہی کام ہوسکتا ہے ، عام آدمی کے لئے یہ سب ممکن نہیں ۔ میں نے آپ کی زوجہ محترمہ کی زبانی جب یہ داستان عزیمت سنی تو دل میں دردوکرب کی ٹیسیں اُٹھیں اورآنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں مگر دل میں اطمینان کی لہردوڑی گئی کہ اسلام پر مر مٹنے والے آج کے دور ِ پُرآشوب میں بھی اللہ کی عاشقانہ بندگی کا حق ادا کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ماسٹر صاحب کا صعوبتوں بھر ایہ سفر حیات بقول موصوفہ کے ۲۰۰۶ء میں اپنے اختتام کو اُس وقت قدرے نئے پڑاؤ پر پہنچا جب مرحوم اپنا گھر آرام سے آ نے جانے لگے۔
 ماسٹرجی مجھ سے قرآنی قواعد یہ کہہ کر پوچھاکر تے تھے کہ میں تجوید نہیں جانتا ہوںمگر میرے رُواں رُواں میں یہ احسا س جاگزیں تھا کہ جناب بشیر صاحب کلام اللہ کے اوامر ونواہی کے علم میںغرق ہیں ،قرآنی تعلیمات سے خصوصی تعلق رکھتے ہیں، عمل بالقرآن میں مست ومحو ہیں ، مخلص وبے لوث داعی ہیں، اسلامی منہج کے عارف ہیں ، قرآنیات سے والہانہ محبت رکھتے ہیں،ا پنے قرب و جوار میں قرآنی دروس مصروف رہتے ہیں ۔ان کی زوجہ محترمہ فخر کے ساتھ اعتراف  کر تی ہیں کہ مجھے اپنے شوہر نامدار سے ہی قرآنی دروس کاسرمایہ ملا جس کے سبب میں خود اب دروس القرآن کے فرائض  سر انجام دینے میں کوشاںہوں ۔ مرحوم اپنی شریک حیات کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی فرصت کے اوقات میں قرآنی تعلیمات اور منہج نبوی ؑ درساً سنا تے ۔ ماسٹر جی نے ایم اے بی ایڈ کر کے استادی کا پیشہ اختیار کیا ۔اپنی اس پیشہ ورانہ زندگی کے دوران بھی شب و روز اسلامی علوم کی آبیاری میں مگن رہتے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی اہلیہ محترمہ کو وہ ہمیشہ ایک معلم الخیر نظر آتے رہے ۔ان کے ذوقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اکثر وبیش تر تنہائی میں رہ کر مطالعہ کتب اور بقیہ علوم کی تحصیل میں محو رہتے ۔طبعاً سادہ اور شرافت نفسی کے باوجود حق بات کسی رعایت اور مصلحت کے کہتے ،اوربغیر لاگ لپٹی اور ڈنکے کی چوٹ پر سچائی کی طرفداری کر تے تاکہ اظہار حق پر کوئی آنچ نہ آئے، باوجودیکہ یہی حق گوئی ان کے لئے مصیبت و الم کا سبب بھی بنتی تھی ۔قرآن سے بہت ہی قریبی لگاؤ تھا کہ جب بھی کوئی شاگرد ان کے گھر ملنے جاتا تو ہمیشہ ان کی آغوش میں قرآن پاتا ۔ سچ یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ یہ لگاؤ ان کی فطرت ثانی بنا تھا ۔ آخری ایام میں اکثر اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ میری آخری آرام گاہ پر کتبہ نہ لگانا بس اتنا لکھ دینا کہ ’’جاؤ قرآن پڑھو‘‘۔
 جامِ اجل پینے سے قبل بشیر صاحب قرآن وحدیث کا دیرینہ شوق لئے اجتماعِ ارکان میںشریک تھے اور ہمہ تن درس سن رہے تھے کہ ان پر غشی کے دورے پڑ گئے، رفقاء نے ا نہیں گھر لایا ، علاج و معالجہ کے بعد گرچہ تھوڑا بہت افاقہ ہوا لیکن یہ مرض سے شفا یاب ہونے کے بجائے یہ بیماری ان کے وجود سے گویا چمٹ کے رہ گئی ۔ اپنی موت سے کچھ ماہ قبل اپنے مطالعہ کے کمرے کی ترتیب بدل دی،کچھ اس انداز سے اپنے کمرے میں کتابوں کو نئی ترتیب دی کہ منہ جانب قبلہ رہے۔یہ مرد حُر اسی پیرائے میں اپنی آخری منزل کی طرف رواں دواں ہوا کہ ایک صبح اُٹھ کر سورۃ التکاثر کا درس دیا۔اہل خانہ نے تھوڑے سے وقفہ کے بعد دیکھا کہ اپنے کمرے میں ان پرپھر سے غشی کے دورے پڑ گئے ہیں ، دیکھا کہ راہ حق کا تھکا ماندہ مسافر قرآن مجید کو سینے سے چمٹائے ہوئے پڑا ہے۔انہیں علاج ومعالجہ کے لئے چندی گڑھ کے PGIاسپتال میں پہنچایا گیا مگر ۲۰ جنوری ۲۰۱۴ء کو اپنے اہل خانہ، سامعین ، طلبہ ا ور عزیز و اقارب کو داغ مفارقت دے گیا ۔ انا اللہ ونا الیہ راجعون۔
ماسٹر بشیر مرحوم نے اپنے علاقہ میں دوران ِ حیات عزیز دوستوں سے مل کر ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد موسوم بہ ’’ ماڈرن انگلش میڈیم اسکول ‘‘ ڈالی جسے بہت جلد شائقین اور عوام کے ساتھ مل کر تعلیم و تعلم کا گہوارا بنا دیا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تمام حسین خواب اسی ادارے سے وابستہ کر دئے ۔ شکر ہے کہ یہ ادارہ اپنے فرائض تندہی ، لگن اور اخلاص کے ساتھ انجام دے رہا ہے، گرچہ راہ حق کا وہ مسافر ادارے میں کہیںجسمانی طور موجود نہیں مگر اُن کے نیک خیالات ، صالح جذبات اور عمدہ سوچ کی پرچھائیاں ادارے کی تعلیمی وتدریسی سرگرمیوںمیں متواتر دیکھی جارہی ہیں ۔ چونکہ ادارے کا قیام مرحوم کے داعیانہ کردار کا رہین منت ہے ،اس لئے بھی اللہ کی تائید وحمایت سے ان کی کوششیں رنگ لارہی ہیں اور موصوف کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بالعموم اورمرحوم کے اپنے بچے بالخصوص مل کر ادارے میں اسلامی منہج کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں ۔مرحوم نے اپنے پیچھے اپنی بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹیوں اورتین بیٹیوں کو چھوڑا ۔ان کی رفیق حیات کہتی ہیں کہ با وجود ایک سرکاری ملازم ہونے کے اُن کے پاس کوئی بچت نہ تھی ،ان کی کوئی بنک بیلنس بھی نہ تھی۔ مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی ان ایام میں تولد ہوئی جب ہر طرف ہو کا عالم تھا ، زندگی بہت تکلیف دہ ، مصائب و مشکلات میں گھری ہوئی اور انتہائی کٹھن و صبر آزما تھی ۔ان کا ایک جوان سالہ فرزند بھی درد میں مبتلا ہے جس کا سبب بھی حالات کی یہی اذیت ناکی ہے کیوں کہ بروقت علاج و معالجہ نہ ملنے کے سبب وہ اس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہو گیا ۔میں سوچتا ہوں کہ آخر وہ کون سی آہنی قوت و طاقت تھی جس نے اس مردِ حر کی اہلیہ محترمہ کو یہ سب ناگفتہ بہ حالات برداشت کر نے کا حوصلہ دیا ۔ بہر حال یہ سب دیکھ کرشاید یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس غیبی امداد و نصرت ِایزدی کا راز ماسٹر بشیر احمد ڈار کی قرآنی تعلیمات سے گہرا شغف اور منہج نبوی ؐ سے والہانہ محبت میں مضمر تھا ۔مرحوم کے چھوٹے بھائی جو میرے استاد محترم ہیں ،کم عمر ی کے باوجود انہیں دیکھ کر اپنائیت کا احساس قلب وجگر میں جاگزیں ہوتا ہے۔جب اس مردِ حر کو دیکھا تو پہلی بار تحریک اسلامی کا تعارف ہوا کہ جو اقامت دین کی متمنی اور حقانیت کی متلاشی ہے ۔ان کی قربانیوں سے بے خبری کا عالم تھا کہ کبھی کبھار ان سے ہنسی مذاق بھی کرتا تھا ۔ان کی کسر نفسی کا حال یہ کہ مجھ سے پوچھتے تھے قرآنی قواعد کے حوالے سے یہ لفظ یا یہ آیت کیسے پڑھی جائے ۔ سوچتا ہوں کہ کس قدر یہ لوگ وفادار رہے اپنے مالک حقیقی کے کہ اپنی عافیت و خیریت کو بھلا کر اور مصیبتیں جھیل کر شب و روز اُسی خدائے یکتا کے نام لیواؤں کی حیثیت سے زندہ رہنے کے کوشاں رہے ۔ بارگاہ ِ الیٰہہ میں دعا ہے کہ حق تعالیٰ مرحوم کوکروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ خیر جب ماسٹر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے تومقامی عید گاہ میں لوگوں کے اژدھام کودیکھ کر استاذی محترم کا جنازہ اشموجی کے سپورٹس سٹیڈیم میں پڑھایا گیا۔ڈار صاحب کی حیاتی میں جب بھی انہیں لوگ اسلام کانام لینے پر اذیتیں دیتے تھے تو ان کی اہلیہ مایوس ہوتیں اور کبھی کبھار اُن سے پوچھتیں کہ لوگ آپ کو گالیاں دیتے ہیں اورتکالیف دیتے ہیں تو بھی آپ ان کی بھلائی کے لئے کیوں سوچتے ہیں ؟استاذی محترم ان کو حوصلہ دیتے ہوئے واقعہ طائف کے علاوہ امام حنبل ؒ کے یہ الفاظ یاددلاتے تھے: ’’ہمارا جنازہ فیصلہ کرے گا کہ ہم حق پر تھے‘‘ اور جب ماسٹر جی کا جنازہ پڑھایا گیا تو یہ بات سو فیصد حق ثابت ہوئی کہ لوگوں کا سمندر سپورٹس اسٹیڈیم میں ان کے جنازے کے لئے موجود تھا ۔
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر
جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزم گاہ کے درمیاں
ہے میرا نشان کھلا ہوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس
نئے معرکوں پہ تلا ہوا
مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر
ابھی میرے کف کی گرفت ہے