Taasir Urdu News Bureau: Uploaded | 28 Apr 2018
مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ کے چیف جسٹس کے ایم جوزف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے کی کولیجیم کی سفارش نا منظور کر دی ہے ۔اور ان کے تقرر سے متعلق فائل سپریم کورٹ کو لوٹاتے ہوئے ان کے نام پر دو بارہ غور رکرنے کیلئے کہا ہے ۔جب کہ سنیئر ایڈووکیٹ اندو ملہوترا کے سلسلے میں کولیجیم کی سفارش کو منظور کر تے ہوئے انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیاہے ۔انہوںنے سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ بھی سنبھال لیاہے ۔اندو ملہوترا براہ راست وکیل سے سپریم کورٹ کی جج بننے والی پہلی خاتون ہیں ۔کولیجیم نے ججوں کے تقرر کے سلسلے میں صرف دو ناموں کی سفارش کی تھی ۔اس میں سے ایک نام کو منظور اور دوسرے کومسترد کئے جانے سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔
کانگریس کے رہنما اور سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل کپل سبل نے حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض کر تے ہو ئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی پسند کے لوگوں کو ہی جج بنانا چاہتی ہے ۔وہ عدلیہ میں سیدھے طورپر مداخلت کر رہی ہے ۔جس سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ا سلئے نہ صرف قانون دانوں بلکہ عوام کو بھی حکومت کے اس رویہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ۔جب کہ وزیر قانون و انصاف روی شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ کانگریس ہمیں قانون نہ سکھائے ۔اس معاملے میں جو بھی ہواہے وہ ضابطے کے مطابق ہواہے اس لئے اس پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔حکومت نے جسٹس جوزف کا نام مسترد کئے جانے کی جو وجہ بتائی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے 669ججوں کی طویل فہرست میں جسٹس جوزف کا نام 42ویں نمبر پر آتاہے یعنی ان سے سنیئر کئی جج موجود ہیں اس لئے ایسا لگتاہے کہ کولیجیم نے سینیا ریٹی اور علاقائی نمائندگی کو نظر انداز کیاہے ۔اس لئے اسے ان کے نام پر دوبارہ غور کر نا چاہئے ۔حالانکہ اس کا جواب کولیجیم کی طرف سے پہلے ہی دیا جاچکاہے ۔ کولیجیم نے ان کے نام کی سفارش کی وجہ بتاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ اس وقت ملک کے سب سے بہترین جج ہیں ۔یہ بات جسٹس جوزف سے متعلق دیگر تفصیلات کے ساتھ سپریم کورٹ کے ویب سائٹ پر بھی ڈال دی گئی تھی ۔لیکن چوںکہ حکومت ان میں سے صرف ایک یعنی اندو ملہوترا کے نام کو ہی منظوری دینا چاہتی تھی اس لئے اس نے صرف ملہوترا کی فائل آئی بی کو بھیجی اور وہاں سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد ان کے تقرر کا وارنٹ جاری کر دیا۔جسٹس جوزف کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اتراکھنڈ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے 2016میں ریاست میںنافذ صدر راج کو ہٹا کر اس وقت کی کانگریس حکومت کو بحال کر دیاتھا ۔یہ بات بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو پسند نہیں آئی تھی اور اسی کا خمیازہ انہیں اس شکل میں بھگتنا پڑا ہے ۔
اپوزیشن کانگریس نے بھی جسٹس جوزف کا نام مسترد کئے جانے کی یہی وجہ بتائی ہے ۔لیکن اس بات کو صرف اسلئے مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بات اپوزیشن بھی کہہ رہاہے ۔بات میں اگر وزن ہے تو اس پر ملک کے غیر جانبدار اور حق پسند عوام کے علاوہ حکومت کو بھی غور کر ناچاہئے۔ ۔اگر کولیجیم کی نظر میں موجودہ ججوں میں جسٹس جوزف سب سے اہل اور قابل جج ہیں تو انہیں دوسروں پر ترجیح کیوں نہیں دی جاسکتی ہے ؟حکومت کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتاہے؟حکومت کو جسٹس جوزف کے نام پر اس لئے بھی اعتراض نہیں کر نا چاہئے تھا کیوںکہ ایسا کر نے کی صورت میں2016کی اترا کھنڈ فائل کا کھلنا لازمی تھا۔اور اس وقت تو بالکل نہیں کر نا چایئے تھا جب حکومت پر عدلیہ میں مداخلت کر نے اور عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا الزام لگ رہاتھا ۔ وزیر قانون و انصاف فیصلے کو ضابطے کے مطابق مانتے ہیں اور کانگریس کو یہ کہہ کر خاموش کر نا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں کانگریس کا ریکارڈ بھی بے داغ نہیں ہے ۔لیکن ہمارا یہ کہنا ہے کہ کوئی اگر غلطی کر ے تو آپ کو بھی غلطی کرنے کا لائسنس نہیں مل جاتا۔اور دوسری بات اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ حکومت کو نہ صرف انصاف پسند ہونا چاہئے بلکہ اس کے عمل سے انصاف پسند ی ظاہر بھی ہو نی چاہئے ۔اس معاملے میں انصاف کے بجائے انتقام کی بو آرہی ہے ۔جس سے حکومت کو ہر حال میں بچنا چاہئے تھا ۔