نئی دہلی، 22 اپریل (یواین آئی) بارہ سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصورواروں کو کم از کم 20 سال یا تاعمر قید کی سزا یا پھانسی دینے کا قانون آج سے عمل میں آ گیا۔آبروریزی کے بڑھتے جرائم کو روکنے کے لئے سخت دفعات والے فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس کو صدر رام ناتھ کووند نے آج منظوری دے دی اور اس کے ساتھ ہی اسے نافذکر دیا گیا ہے ۔ مرکزی کابینہ نے آرڈیننس کو کل منظوری دی کر اسے صدر کے پاس بھیجا تھا۔آرڈیننس میں التزام ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو تاعمر قید کی سزا یا پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ سولہ سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے مجرم کی کم از کم سزا 10 سے بڑھا کر 20 سال کرنے کا انتظام کیا گیا ہے جسے تاعمر تک بڑھائی جا سکتی ہے ۔سولہ سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کے مجرم کو تاعمر جیل میں رہنا ہوگا۔ عصمت دری کے تمام معاملات میں تحقیقات لازمی طور پر دو ماہ میں مکمل کرنا ہوگی اور سماعت بھی دو ماہ میں مکمل کرنے کی تجویز ہے ۔ فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت چھ ماہ میں مکمل کرنا ہوگی۔ آرڈیننس میں یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ سولہ سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا اجتماعی آبروریزی کے ملزمان کو پیشگی ضمانت نہیں ملے گی۔آرڈیننس میں 16 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے ساتھ آبروریزی کے لئے کم از کم سزا سات سال کے سخت قید سے بڑھاکر دس سال کرنے اور اسے تاعمر تک بڑھانے کا التزام کیا گیا ہے ۔ سولہ سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کے ملزمان کو پیشگی ضمانت کا التزام ختم کر دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ التزام کیا گیا ہے کہ عدالت کو 16 سال سے کم عمر کی بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے مجرم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت شروع کرنے سے 15 دن پہلے سرکاری وکیل اور متاثرہ کے نمائندوں کو نوٹس دینا ہوگا۔کابینہ نے ان قانونی دفعات کو عمل میں لانے اور مجرمانہ انصاف کے نظام کو بہتر بنانے اور کام میں تیزی لانے کے لئے بہت سے دوسرے اہم اقدامات کو بھی منظوری دے دی۔ ان میں ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام ریاستوں کے ساتھ مشورہ کرکے نئی فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام شامل ہے ۔ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام ریاستوں کے ساتھ مشورہ کرکے سرکاری وکلاءکے نئے عہدے وضع کئے جائیں گے اور متعلقہ فریم ورک تیار کیا جائے گا۔ ساتھ ہی تمام پولیس اسٹیشنوں اور اسپتالوں کو عصمت دری کے معاملات کے لئے خاص فارنسک کٹ دی جائیں گی۔ان مقدمات کی تحقیقات کے لئے مرحلہ وار طریقے سے عوامی وسائل مہیا کرائے جائیں گے ۔ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں صرف عصمت دری کے مقدمات کی تحقیقات کے لئے خصوصی فارنسک لیبارٹری قائم کی جائیں گی. یہ تمام اقدامات نئی مشن موڈ منصوبے کے تحت اٹھائے جائیں گے جس کی شروعات تین ماہ کے اندر کی جائے گی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو جنسی مجرموں کی پروفائل اور قومی ڈیٹا بیس تیار کرے گا۔ یہ ڈیٹا تفتیش کے دوران وقتا فوقتا ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا۔ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ متاثرہ کو ایک ہی جگہ پر مدد دینے والے ‘ون اسٹاپ سینٹڑ’ ملک کے تمام اضلاع میں قائم کیے جائیں گے ۔ قابل غور ہے کہ جموں کے کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اس کا قتل اور اترپردیش کے انا¶ میں نابالغ کی عصمت دری کے بعد اس طرح کے جرائم کے قصورواروں کو سزائے موت دینے کے لئے ملک بھر میں آواز اٹھ رہی تھی۔ وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے قصوررواروں کو بخشا نہیں جائے گا
زانیوں کیلئے سزائے موت کا قانون نافذ
