Taasir Urdu News Network | Uploaded on 09-May-2018
میں بیرک کے ایک کونے میں بیٹھا رہتا۔وہیں سوچتا،وہیں سو جاتا۔کبھی کھانا کھاتا،کبھی نہیں ۔کئی ۔کئی دن یوں ہی گزر جاتے،نہانے کی ہمت نہیں ہو پاتی کیونکہ سب کو ساتھ نہانا ہوتا تھا۔شام 6 بجتے ہی ہم اندر کر دئے جاتے تو صبح 6 بجے تالا کھلتا۔گنتی ہوتی۔قیدیوں کی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اسپتال میں مریضوں کا انتظار یاد آتااور وہ رات جب مرتے بچوں کی سانسوں کیلئے میں رات بھر یہاں سے وہاں دوڑتا اور اوپر والے سے دعا مانگتا رہا۔
گورکھپور میڈیکل کالج میں گزشتہ سال آکسیجن کی کمی سے تقریبا 70بچوں کی موت کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان ایک کٹھ گرے میں آ گئے۔ستمبر 2017 سے اپریل 2018 تک کا وقت جیل میں کاٹا۔حال ہی میں رہا ہوئے کفیل کیلئے 8 مہینے کسی آزمائش سے کم نہیں تھے۔
مشکل حالاتوں میں مریضوں کی جان بچانے کا فیصؒہ لمحہ بھر میں لینے والا یہ ڈاکٹر جیل کے اندر روزمرہ کے کاموں کو لیکر بھی پیش و پیش میں رہتا۔خون ،عصمت دری،غدار ملزموں کے درمیان اس انتظار کے ختم ہونے کے انتظار میں جس کی کوئی میعاد نہیں تھی۔
دو ستمبر کی رات تقریبا دیڑھ بجے بھائی کا فون آیا۔تب میں گورکھپور سے چھپتے ۔چھپاتے دہلی آ چکا تھا۔اس نے کہا کہ میں خود کو پولیس کے حوالے نہ کروں تو لکھنؤ میں میری بہن گرفتار کر لی جائے گی۔یہصرف ایک دھمکی نہیں تھی۔آواز میں تھر تھراہٹ میں فون پر بھی محسوس کر سکتا تھا اگلی صبح میں لکھنؤ میں تھا۔وہاں سے مجھے ایک خفیہ جگہ لے جایا گیا۔سوالوں کی بوچھار سی لگ گئی،دھمکیوں کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں،کہ مجھے یا یرے گھر والوں کو کسی بھی حال میں میڈیا کے سامنے کوئی بیان نہیں دینا ہے۔
بتادیں کہ 60زیر سماعت قیدیوں کی گنجائش والی ‘شتابدی’بیرک میں دو گنا سےبھی زیادہ قیدی تھے۔میں ان میں جڑ گیا۔کسی پر قتل کا الزام تھا تو کسی پر عصمت دری کا۔بیرک کے اندر گھستے ہی ساری آنکھیں مجھ پر ٹھہر گئیں۔کسی میں پہچان تھی،کسی میں ہمدردی،کسی میں سوال۔میں سمٹ کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔تقریبا 15 دن اسی کونے میں گزرے۔
ایک روز ایک قیدی آیا۔اس کے ہاتھ میں چائے تھی۔اسی رات ایک دوسرے ساتھی نے بڑے من سے کھانا کھلایا۔سنگین جرائم کے ملزم مجھے ڈپریشن سے نکال رہے تھے۔اسپتال کا ڈاکٹر جیل کے اندر کسی بچے کی طرح سہما رہتا۔ایک روز میں کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کہ تبھی چینخنے کی آواز آئی ۔ایک قیدی مانو پھاڑ کھانے کے ارادے کے ساتھ میری طرف دوڑ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ مجھتک پہنچ پاتا ،باقیوں نے اسے پکڑ لیا۔ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے میں سمجھ چکا تھا کہ یہ نشہ چھوڑنے کے فورا بعد والی تکلیف تھی۔
مجھے نہیں پتہ ہوتا تھا کہ اس وقت کے ساتھ کیا کرنا ہے۔باہر تھا تو صبح کی شروعا تاخبار اور چائے کے ساتھ ہوتی،جیل میں چائے لینا بھی جنگ جیتنے سے کم نہیں تھا۔چائے ایک تو صبح دیر سے آتی اس پر بھاری بھیڑ کر چھل سے ایک ایک کر کے چائے ڈالی جاتی۔اپنی باری آتے گھنٹہ بھر لگ جاتا۔چائے ہاتھ میں آتے تک چینی والا رنگین وانی ہو چکی ہوتی۔میں نے چائے چھوڑ دی۔اخبار بھی دیر سے آتا اور پھر یہاں وہاں گھومتا۔
اخباروں کی جگہ کتابوں کو دے دی۔8 مہینوں میں جتنی کتابیں پڑھیں،اتنی ڈاکٹری کی پڑھائی کے دوران بھی شاید ہی پڑھی ہوں گی۔کوئی ساتھی قیدی اپنی کہانی سناتا تو اسے ڈائری میں درج کرتا۔او پی ڈی کی پرچیوں کی جگہ ڈائری نے لے لی تی اور مریضوں کی جگہ قیدیوں کی تکلیف اوردرد نے۔
جیل میں اور کس طرح کی جدو جہد دیکھی!سوال پر چھوٹی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، ‘وہاں کا کھانا’.دن کے 11:30 پر کھانا ملتا ۔بڑی سی پرات نما تھالی میں پانی والی دال ،جیل کے احطے میں اگنے والی کوئی سبزی ،کچی ۔پکی روٹیاں اور چاول ایسے مانو کوئی چھوٹا موٹا ہاتھی لیل رہا ہو۔حالانکہ یہ وقت اچھا لگتا تھا،سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے اور اپنے دکھ۔سکھ کہتے تھے۔مجھ سے بڑی ہی نرمی سے پیش آتے۔