Taasir Urdu News Network | Uploaded on 17-May-2018
سری نگر۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی وادی کشمیر میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے کی روایت برقرار ہے۔ تاہم یہ فریضہ انجام دینے والے سحر خوانوں کی تعداد ہرگذرتے سال کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے جواں سال نوجوان شریف الدین گذشتہ قریب دس برس سے پائین شہر کے صفا کدل میں لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ رمضان میں لوگوں کو جگانے کے علاوہ موسم سرما کے دوران مقامی مسجد کے حمام کو گرم رکھنے کی ذمہ داری بھی سنبھالتے ہیں۔ شریف الدین کہتے ہیں ’میں گذشتہ قریب دس برس سے لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوں۔ مجھے یہ فریضہ انجام دینے سے قلبی سکون ملتا ہے‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ ’کیا اس جدید دور میں سحرخوانی کی کوئی مطابقت ہے‘ تو شریف الدین کا جواب میں کہنا ہے ’مقامی لوگ چاہتے ہیں کہ یہ روایت یوں ہی برقرار رہے۔
وہ نیند سے بیدار ہونے کے لئے اپنے موبائیل فونوں میں الارم بھی سیٹ کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی پر سحرخوانی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم ان کے لئے الارم کا کام کرتے ہیں‘۔ کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے اس سحرخوان نوجوان کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی لوگ رمضان کے اواخر بالخصوص عیدالفطر کے موقع پر نقدی اور ضروریات زندگی کی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ’لوگوں میں سحرخوانوں کے تئیں عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر گذرتے سال کے ساتھ سحرخوانوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے‘۔