دنیا کے 20 آلودہ ترین شہروں میں انڈیا کے 14 شہر شامل

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 03-May-2018

عالمی ادارۂ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 20 آلودہ ترین شہروں میں انڈیا کے 14 شہر شامل ہیں اور دنیا میں ہر دس میں سے نو انسان آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔

عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او نے اپنے تازہ تخمینے میں بتایا ہے کہ ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد گھر کے اندر اور باہر کی آلودہ ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔

ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم غبریسس نے کہا کہ ‘فضائی آلودگی سے ہم سب کو خطرہ ہے لیکن اس کا خمیازہ سب سے زیادہ غریب اور حاشیے پر رہنے والے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘تین ارب لوگوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں کا روزانہ مہلک ہوا میں سانس لینا ناقابل قبول ہے۔ یہ دھواں ان کے آلودہ کرنے والے سٹوو اور چولھوں سے نکلتے ہیں۔’

انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر فوری طور پر فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اقدام نہیں کیے گئے تو ‘ہم قابل عمل ترقی کے حصول کے قریب بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔’

ادارے نے سنہ 2016 میں آلودگی کی سطح پی ایم 2.5 سے زیادہ والے جن سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا ذکر کیا ہے ان میں دارالحکومت دہلی کے ساتھ ہندوؤں کا مقدس شہر وارانسی یعنی بنارس بھی شامل ہے۔

ان کے علاوہ کانپور، فریدہ آباد، گیا، پٹنہ، لکھنؤ، آگرہ، مظفرپور، سری نگر، گڑگاؤں، جے پور، پٹیالہ، اور جودھپور شامل ہیں جبکہ چین اور منگولیا کے بعض شہر بھی اس میں شامل ہیں۔

بی بی سی اردو نے دہلی میں سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انومیتا رائے چوہدری سے بات کی اور دریافت کیا کہ آخر اس فہرست میں انڈیا کے اتنے سارے شہروں کے آنے کے کیا اسباب ہیں۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ‘فہرست میں شامل سارے شہر شمالی ہند کے علاقے میں ہیں جو ‘لینڈ لاک’ کہلاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سمندر نہیں اس لیے فضائی آلودگی میں کمی کا قدرتی طریقہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں زیادہ تر کھانے پکانے کے لیے جو ایندھن استعمال ہوتے ہیں وہ زیادہ آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ صنعتی کارخانے کے علاوہ سڑک پر گاڑیوں کی تعداد بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب رہی ہیں۔’

انومیتا رائے نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تعمیرات بھی اس کا سبب ہیں۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ جوں جوں شہری آبادی بڑھے گی اس کے نتیجے میں تعمیرات میں اضافہ ہوگا اور سڑکوں پر گاڑیاں بڑھیں گی۔ اس لیے جب تک ہندوستان میں جامع منصوبہ نہیں بنایا جاتا اور ان پر سختی کے ساتھ عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک حالات قابو سے باہر ہی رہیں گے۔

انھوں نے مثال دے کر کہا کہ ‘دہلی میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے اور اس کی وجہ منصوبہ بند کوششیں ہیں اور اسی طرح کی کوششوں کی دوسرے شہروں میں بھی ضرورت ہے۔

اس کے لیے ایسے قوانین اور ضابطے بنانے کی ضرورت ہے جس کی خلاف ورزی قابل تعزیر ہوں۔’

پی ایم 2.5 میں سلفیٹ، نائٹریٹ، اور کالے کاربن جیسے آلودہ کرنے والے مادے شامل ہوتے ہیں جن سے انسانی صحت کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ یہ مادے پھیپھڑوں میں جاتے ہیں اور دل کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے فالج، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کاکینسر، سانس کی بیماری اور نمونیا سمیت دوسرے انفیکشن ہوتے ہیں۔

ادارے نے بتایا کہ گھر کے باہر کی فضائی آلودگی سے صرف سنہ 2016 میں 42 لاکھ لوگوں کی موت ہوئی جبکہ گھر کے اندر پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے 38 لاکھ افراد کی موت واقع ہوئی۔