بہار سے اردو کے فروغ کا پیغام پورے ملک میں جائے گا: امتیاز کریمی

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 11-October-2018

پٹنہ(پی آر)،سہیل عظیم آبادی صف اول کے افسانہ نگار، صف اول کے ناول نگار، صفِ اول کے صحافی اور صفِ اول کے ڈرامہ نگار تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ گویا وہ یکتائے روز گار تھے۔ سہیل عظیم آبادی کی شخصیت پر دوتین گھنٹے کی یادگاری تقریب نہیں بلکہ ان پر ایک دوروزہ سمینار کا انعقاد کیا جانا مناسب ہے۔یہ باتیں معروف فکشن نگار پروفیسر عبد الصمد نے اپنی صدارتی تقریر پیش کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے اردو ڈائرکٹوریٹ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اردو ڈائرکٹوریٹ مرحومین شعراء و ادباء کی خدمات اور ان کے کارناموں کے اعتراف میں یادگاری تقریب کا انعقاد کرتی ہے اسی طرح زندہ لوگوں کے اعتراف میں بھی جس نے اردوشعر و ادب کی دنیا میں اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ گذار ا ۔ ان کا بھی ان کی زندگی میں اعتراف کیا جانا چاہئے۔اس سے قبل پروگرام کا آغاز اردو ڈائرکٹوریٹ کے فعال ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی اور دیگر شرکاء اسٹیج کے ہاتھوںشمع روشن کرکے ہوا۔ ڈائرکٹر موصوف نے تقریب میں دور درا ز شہروں اور پٹنہ کے گوشے گوشے سے تشریف لائے محبان اردو و مہمانان کرام کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔انہوں نے بہار کے مختلف ضلعوں میں اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے ضلع اردو سیل کے زیر اہتمام فروغ اردو سمینار کے کامیاب انعقاد پر اس کی ستائش کی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج بہار کے ہر ضلع میں آئے دن کہیں نہ کہیں اردو پروگرام منعقد ہورہے ہیں، یقینا یہ عمل اردو کی ترقی اور اس کے فروغ کے لئے خوش آئند ہے۔آج ہر جگہ اردو کی ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ آج جموئی میں تو کل موتیہاری میں تو پرسوں کہیں اور ۔۔یقینا اگریہ سلسلہ جاری رہے گا تو اردو زندہ رہے گی، تابندہ رہے گی، طلبا و طالبات اس سے فیض حاصل کرسکیں گے۔وہ مستقبل میں بڑے شاعر اور بڑے ادیب و افسانہ نگار بن سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ یاد گاری تقریب کے انعقاد کے کئی مقاصد ہیں ۔ اردو کا فروغ ، نئی نسل یعنی طلبا و طالبات کو اپنے اسلاف سے روسناش کرانا، ان کو تعلیم کے تئیں بیدار کرنا،خصوصاً اردو تعلیم کی اہمیت و افادیت سمجھانا وغیرہ اس پروگرام کے اہم مقاصد ہیں۔ طلباء کو اس تقریب میں شرکت کا موقع دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان میں نکھار پیدا ہو، ان میں بڑی بڑی محفلوں، مجلسوں اور سمیناروں میں بولنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ وہ بلا جھجھک اپنے مافی الضمیر کو سامعین کے سامنے بخوبی رکھ سکے۔ انہوں نے اس موقع پر طلبا و طالبات اور ان کے گارجین حضرات سے خاص خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم ضرور دلائیں۔ اردو کو نام کے لئے یا صرف ایک سبجیکٹ کے طور پر نہ رکھیں بلکہ اردو کو پڑھنے کے طور پر پڑھیں اردو میں مہارت حاصل کر یں۔ اگر آپ کو اردو سیکھنے میں کسی طرح کی دقت یا پریشانی محسوس ہو تی ہے تو یہ ہم اردو والوں کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو اردو سیکھنے کے وسائل فراہم کرائیں۔ ان کی رہنمائی کریں۔انہوں نے کہا کہ بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کی طرف سے ابھی انجمن اسلامیہ ہال میں دسویں کلاس کے طالب علموں کے لئے اردو کوچنگ کا نظم کیا گیا ہے،جو بالکل مفت ہے۔ جوبچے فروری 2019 کے امتحان میں شامل ہوں گے،وہ بچے اگر چاہیں تو اردو کی تیاری کے لئے ایک گھنٹہ کا وقت دے کر اپنا اردو سبجیکٹ مضبوط کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ساڑھے تین مہینے کے بعد میٹرک امتحان (خواہ وہ بہار بورڈ ہوں یا سی بی ایس ای یا آئی سی ایس ای کے ہوں)ہونے والے ہیں آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ محنت اور لگن سے تیاری میں لگ جائیں۔بے جا کھیل اور موبائل وغیرہ سے دور رہیں۔ اگر آپ اردو والے بچے بہار میں ٹاپ کرتے ہیں، تو انشاء اللہ آپ کو بہار سنی وقف بورڈ کی جانب سے ایک لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو طالب علم بی پی ایس سی کی تیاری کر رہے ہیں وہ پوری محنت سے تیاری کریں۔16 دسمبر کو پی ٹی امتحان ہونے والے ہیں ، حج بھون میں پی ٹی امتحان کے لئے کوچنگ چل رہی ہے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔انہیں امید ہے کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے جس بڑے پیمانے پر فضا سازی ہوئی ہے اس سے بہار میں اردو کو اس قدر فروغ ملے گا کہ بہار سے پورے ملک میں پیغام پہنچے گا اور ملک گیر پیمانہ پر اردو کو سربلندی حاصل ہوگی۔ اول تا آٹھویں کلاس کے طلباء اور طالبات کے کھاتے میں حکومت نے کتابوں کے لئے رقم بھیج دی ہے۔ اس لئے اردو آبادی کے بچوں کے گارجین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہار اسٹیٹ ٹکسٹ بک پبلشنگ کارپوریشن کے ذریعہ دستیاب 124 پبلشر کی فہرست کے مطابق اپنے بچوں کے لئے اردو کتاب کی خریداری ضرور کرلیں۔انہوں نے سہیل عظیم آبادی کی ادبی خدمات اور شخصیت پر مختصر مگر جامع انداز میں بڑی معلوماتی باتیں پیش کیں۔ انہوں نے سہیل عظیم آبادی کی افسانہ نگاری، صحافت اور اردو زبان کی خدمت میں ان کے نمایاں کردار کو پیش کرتے ہوئے انہیں بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ طلبا و طالبات کی پیش کے تحت اشفی علیم، اسجد کریم، محمد اطہر عالم نے سہیل عظیم آبادی کی حیات و خدمات اور ان کے کارناموں پر مختصر مگر جامع انداز میں اپنی باتیں پیش کیں۔معروف افسانہ نگار وادیب شوکت حات ، ڈاکٹر ابو ظہیر ربّانی ، ڈاکٹر سرور حسین نے سہیل عظیم آبادی پر اپنے بیش قیمتی مقالے پیش کئے۔مقالہ نگاروں نے بتایا کہ بہار کے افسانوی ادب کے فروغ میں سہیل عظیم آبادی کی کاوشیں اہم اور بنیادی ہیں۔ وہ صلحِ کل، امن و آشتی اور انسان دوستی کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ غریبوں، کسانوں، مزدوروں کے درد و کرب کو اُجاگر کیا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ انہیں کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

تقریب میں سہیل عظیم آبادی کے صاحبزادے شان الرحمن بحیثیت مہمانِ خصوصی شامل ہوئے۔ معروف شاعر حسن نواب حسن نے سہیل عظیم آبادی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ جسے سامعین نے کافی پسند کیا۔ تقریب کے آغاز میں غلام رسول قریشی نے نعت ’’ میرا وِرد لب ہے نبی نبی میرا دل مقام حبیب ہے میں مریض عشق رسول ہوںوہ حبیب میرا طبیب ہے‘‘ ترنم بھری آواز میں پیش کی۔ پروگرام کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر اسلم جاوداں نے بحسن خوبی انجام دیا۔ظہرانہ کے دوسرے سیشن میں امداد امام اثر یاد گاری تقریب منعقد ہوئی۔ شمع افروزی سے تقریب کی باضابطہ شروعات ہوئی۔ شفیع مشہدی،سابق صدر نشیں ، اردو مشاورتی کمیٹی ، بہار نے فرمائی ۔شفیع مشہدی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ امداد امام اثر نیک طبیعت ،منکسرالمزاج ،کشادہ ذہن اور سادگی پسند انسان تھے۔ مختلف علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے فروغ اور اس کی تشہیر کے لئے مل جل کر کام کیا جائے۔ طلبا و طالبات کی پیش کے تحت رحمت یونس، امام سرور علی، محمد آصف رضانے امداد امام اثر کی حیات و خدمات اور ان کے کارنامے پر اپنی اپنی کاوشیں پیش کیں۔آفتاب احمد آفاقی، پروفیسر ظفر حبیب، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے امداد امام اثر کی حیات و خدمات پر اپنے مقالے پیش کئے۔تمام مقالہ نگاروں نے ان کے شایان شان سیر حاصل گفتگو کی ۔مقالہ نگاروں نے اپنے خطاب میں کہا کہ امداد امام اثر نے شعر و ادب، ارضیات، زراعت، سیاست، حکمت، معاشرت ، اخلاقیات ، مذہبیات وغیرہ پر انہوں نے وقیع اور قابل مطالعہ کتابیں لکھیں ہیں۔کاشف الحقائق ان کی شاہکار تصنیف ہے۔ اردو کے اولین تنقید نگاروں میں امداد امام اثر کی حیثیت مسلم اور منفرد تھی۔ امداد امام اثر جیسے اعلیٰ ذہن اور روشن دماغ شخصیت کے بسیط اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا ادبی و تنقیدی مقام متعین کیا جا سکے ۔ان کی اہم تصنیفات میں کاشف الحقائق، مرأۃ الحکماء، فسانۂ ہمت، کتاب الاثمار، دیوان اثر، فوائد دارین وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں حکومت برطانے کی جانب سے شمس العلماء کے خطاب سے نوازا گیا۔ انہیں نواب کا بھی خطاب ملا۔انہیں ’’ فیلو آف دی پٹنہ یونیورسٹی‘‘ کے اعزاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔بزم سخن کے تحت معین گریہوی، معصومہ خاتون، نصر عالم نصر، نصر بلخی، افتخار عاکف، سنجے کمار کندن، شہزاد اشرفی، جنوں اشرفی، معین کوثر، ضیاء الرحمن ضیاء نے اپنے کلام سے سامعین کو خوب خوب محظوظ کیا۔ تقریب میں کثیر تعداد میں شہر کی ذی وقار او ر معزز ادبی شخصیتوں ڈاکٹر ہمایوں اشرف، پروفیسر شہناز فاطمی،احمد جاوید، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، امتیاز کریم، نجم الحسن نجمی، جلال کاکوی، اثر فریدی، شمع ناسمین،ایم۔کیو جوہر، جاوید اختر، انوارالہدیٰ، محفوظ عالم، انواراللہ اور سہیل عظیم آبادی کی دوپوتیوں مسرت فاطمہ و طلعت فاطمہ کے علاوہ کثیر تعداد میں محبانِ اردو و قدردانِ سہیل عظیم آبادی اور امداد امام اثر نے شرکت فرمائی۔