بریگزٹ کے معاملے پر تھریسا مے کی وزارتِ عظمیٰ خطرے میں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 22-November-2018

لندن، برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے یورپین یونین سے علحدگی کے لیے پارلیمان کی حتمی منظوری کی کوشش کر رہی ہیں۔ برطانوی پارلیمان کے اراکین نے اس فیصلے کے حق میں ووٹ دینے کا عہد کیا ہے، جبکہ تھریسہ مے کی اپنی سیاسی جماعت اْنہیں وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔دریں اثنا، یورپی یونین سے علحدگی کی مخالفت کرنے والے اس بارے میں ایک اور ریفرنڈم کی توقع کر رہے ہیں۔ یورپی یونین اس معاہدے پر آئیندہ اتوار کو دستخط کرنے کی خواہشمند ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ جوں جوں یورپی یونین سے حتمی علحدگی کی تاریخ مارچ 2019 قریب آ رہی ہے، برطانیہ میں یورپی یونین سے علحدگی کے مراحل میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔برطانیہ میں کاروباری شخصیات نے پیر کے روز اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حوالے سے بے یقینی سے کاروبار کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کنفیڈریشن آف برٹش انڈسٹری کی ڈائریکٹر کیرولین فیئر بیئرن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بریگسٹ سے حکومت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہر سیاستدان، ہر سرکاری ملازم اور برطانوی کاروبار بھی نقصان کی زد میں ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ برطانوی کمپنیاں برے حالات کیلئے تیار رہنے کی غرض سے لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر رہی ہیں۔تاہم، برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والا معاہدہ کاروبار کیلئے اچھا ہوگا اور وہ دنیا بھر سے قابل افراد کو بھرتی کر سکے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ایسا نہیں ہوگا کہ یورپی یونین کے شہری کم قابلیت اور تجربہ رکھنے کے باوجود سڈنی کے انجینیروں اور دہلی سے سوفٹ ویئر تیار کرنے والوں سے آگے آکر کھڑے ہو جائیں گے۔کہا جاتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان یورپین یونین سے الگ ہونے کے حامیوں کو خوش کرنے کیلئے ہے، جن کا کہنا ہے کہ معاہدے سے انحراف کے ذریعے برطانیہ یورپین یونین سے قریبی طور منسلک ہو سکتا ہے۔یورپی اصلاحات کے مرکز کے جان سپرنگ فورڈ کے مطابق، بریکسٹ کے حامی اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ تیزی سے ترقی کرنے والے ایشیائی ممالک اور امریکہ سے بہت سے تجارتی معاہدے کر سکیں گے۔ اْنہیں اب جس مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ تھیریسا مے کسٹمز یونین کے معاہدے پر دستخط کر چکی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ محصولات کے سلسلے میں اور اپنی تجارتی پالیسیوں کے دیگر محرکات کے حوالے سے یوپی یونین کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے اختیارات سے محروم ہو جائے گا۔برطانیہ کے متعدد وزراء￿ اس حوالے سے احتجاج کے طور پر مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ دیگر وزراء تھیریسا مے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ معاہدے کی شرائط میں تبدیلی کریں۔ تاہم، برطانوی وزیر اعظم اور یورپی یونین دونوں نے تصدیق کی ہے کہ اس بارے میں مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔جیسے جیسے تھیریسا مے کی قدامت پسند جماعت میں بغاوت زور پکڑ رہی ہے، ماہرین کے مطابق اس بات کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ اس جماعت کے ارکان اسی ہفتے کے دوران تھیریسا مے کی متبادل قیادت کو سامنے لے آئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تھیریسا مے اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو بھی گئیں تو جماعت کے بیشتر ارکان نے پارلیمان میں اس معاہدے کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔جان سپرنگ فورڈ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کاروباری حلقوں کی جانب سے کسی موذوں معاہدے کیلئے دباؤ بڑھتا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری صورت میں یا تو تھیریسا مے کو مستعفی ہونا پڑے گا یا پھر بریکسٹ کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کا انعقاد ہوگا۔تھیریسا مے اس ہفتے برسلز کا دورہ کرنے والی ہیں جہاں ایک سیاسی اعلامیے کے بارے میں بات چیت ہو گی جس میں برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مستقبل کے تعلقات کا تعین ہوگا۔ تاہم، اس معاہدے پر قانونی طور پر علدرآمد لازمی نہیں ہو گا اور تھیریسا مے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سازگار تجارتی معاہدے کے بغیر برطانیہ کو یورپین یونین سے نکلنے کیلئے 50 ارب ڈالر کے واجبات ادا نہیں کرنے چاہئیں۔یورپی یونین سے برطانیہ کی مکمل علحدگی کی حتمی تاریخ مارچ 2019 ہے اور اس تاریخ کے قریب پہنچنے کے ساتھ ساتھ برطانوی سیاستدانوں اور عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔