سنتوں کا فرمان:رام مندر کیلئے بنے قانون

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 05-November-2018

نئی دہلی ،(یواین آئی)ملک بھر سے آئے تین ہزار سے زائد سادھوسنتوں نے مرکزی اور اترپردیش حکومتوں کو آج ‘مذہبی فرمان ‘جاری کیاکہ وہ قانون یا آرڈیننس یا کسی دوسرے طریقہ سے اجودھیا میں رام جنم بھومی پر عالی شان رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموارکریں ۔اکھل بھارتیہ سنت سمیتی کے یہاں تال کٹورا اسٹیڈیم میں منعقدہ دوروزہ ‘دھرمادیش سنت مہاسمیلن کے اختتام کے موقع پر سمیتی کے صدر جگدگرو رامانند چاریہ ہنسدیواچاریہ نے مذہبی فرمان پڑھ کر سنایا۔سمیتی کے قومی قومی مہامنتری سوامی جتیندرانند سرسوتی نے صحافیوں سے کہا،رام مندر کے لئے حکومت قانون لائے یا آڈیننس ،یہی ہے سنتوں کا مذہبی فرمان انھوں نے کہاکہ حکومت چاہے تو سپریم کورٹ سے درخواست کرسکتی ہے کہ رام مندر کے تعلق سے عوام میں بہت زیادہ جوش وخروش ہے اور امن وقانون صورتحال خراب ہوسکتی ہے اس لئے اس معاملہ کی سماعت جلد شروع کردے ۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ کے سابق جج چلمیشور نے واضح کردیاہے کہ عدالت میں زیر التوامعاملوں پر بھی حکومت آرڈیننس لاسکتی ہے اور قانون بناسکتی ہے ۔انھوں نے کہاکہ حکومت کا کام نظام اور قانون بناناہے اور عدالت کا کام قانون کی تشریح کرناہے ۔حکومت جوبھی مناسب سمجھے ،اسے کرے جس سے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہرحل میں ہموار ہو۔سوامی جتیندرسرسوتی نے کہاکہ جمہوریت میں عوامی حمایت کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں ۔اس لئے سنت ملک میں عوامی حمایت حاصل کرنے کا کام کررہے ہیں ۔عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس ماہ 25نومبرکو اجودھیا ،ناگپور اور بنگلورومیں سنتوں کے بڑے مذہبی اجلاس منعقد کئے جائیں گے اور اسکے بعد 500ضلعوں میں بڑے بڑے اجلاس منعقد کئے جائیں گے ۔اس کے بعد 9دسمبرکو نئی دہلی میں بڑا مذہبی اجلاس ہوگا جس میں 10لاکھ سے زیادہ لوگوں کے آنے کا امکان ہے ۔مودی سرکار کے بارے میں سنتوں کی رائے سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے کہاکہ کوئی بھی حکومت عوام کے تئیں جوابدہ ہوتی ہے ۔سنتوں کا مانناہے کہ اس حکومت نے کئی اچھے کام کئے ہیں ۔لیکن رام مندر کے معاملہ میں اگرمگر کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ہم سب اسی جنم میں ،اسی پارلیمانی مدت کار میں مندردیکھنا چاہتے ہیں ۔سرمائی اجلاس میں گنگا کے بارے میں ایک بل آنے والاہے ۔ہمیں لگتاہے کہ گاؤکشی پر پابندی کا بھی قانون آنا چاہئے۔اپوزیشن پارٹیوں سے امید کے بارے میں پوچھے جانے پر انھوں نے کہاکہ ایسی پارٹیوں پر سنتوں کوکوئی بھروسہ نہیں ہے جنھوں نے اپنے دورحکومت میں ان پر دہشت گردہونے کا الزام لگادیاتھا۔سوامی اسیمانند اور سادھوی پرگیا ٹھاکر کو جیل میں بندکرکے اذیتیں دیں ۔انھوں نے کہاکہ حقیقت یہ کہ کانگریس کے وکیل راجیودھون ،کپل سبل اور وویک تنکھا ہندوؤں کو منہ چڑھانے کاکام کررہے ہیں ۔انھوں نے کہاکہ اگراپوزیشن پارٹیاں واقعی سنجیدہ ہیں توپارلیمنٹ میں آنے والے ایک غیر سرکاری بل کی حمایت کریں اور رام مندر کا راستہ ہموارکریں ۔مرکز کی نریندر مودی اور اترپردیش کی یوگی حکومت کے بارے میں انھوں نے کہاکہ موجودہ حکومت ان لوگوں کی ہے جو اس ملک کو اپنی مادروطن مانتے ہیں اور اسکی سیواکو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔سنتوں کو یقین ہے کہ مودی اور یوگو کی ہی جوڑی رام مندر کی تعمیر کرائیگی۔مذہبی فرمان میں آخر میں کہاگیا،شری رام جنم بھومی مندرکی تعمیر کاراہ ہموارنہ ہونے سے ہمیں جہاں دکھ ہے وہیں حکومت کے ملک ،مذہب ،ثقافت اور قومی سلامتی اور قومی وقار سے جڑے کئی کاموں سے مطمئن ہیں ۔ہماری جو امیدیں ہیں ،وہ اسی حکومت سے ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ ہمارے مسائل کا حل بھی یہی حکومت نکالے گی اور ہماری امیدوں پر کھری اترے گی۔سبری مالا سے جڑے ایک سوال پر انھوں نے کہاکہ سری سری روی شنکر نے آج کے سمیلن میں واضح طورپر اپنی بات رکھی ہے اور سنتوں کابھی یہی موقف ہے ۔سپریم کورٹ نے ہندو عورتوں کے مساوات کی بات کہی ہے ۔یہ نہیں کہاہے کہ مسلمان یاعیسائی عورتیں خون آلود سینٹری پیڈ لیکر مندر کو ناپاک کریں ۔عدالت نے مقدس مقامات کو ناپاک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔انھوں نے کہاکہ سبری مالا پر وہ وعظ نہ کریں جن کے مذ ہب میں دوخواتین کا ووٹ ایک مرد کے ووٹ کے برابر ہوتاہے ۔اور وہ بھی نصیحت نہ کریں جن کے چرچ نے امریکہ میں صدارتی عہدے پر کسی رومن کیتھولک کے ہی بیٹھنے کا حکم دے رکھاہے ۔انھیں لوگوں نے 1975سے پہلے اپنی عورتوں کو عدالتون سے محروم رکھاتھا۔سمیلن میں منظور کئے مذہبی فرمان میں حکومت سے گایوں کے تحفظ کے لئے الگ وزارت قائم کرنے ،بنگلہ دیش کی سرحد کی ہائی ٹیک فینسنگ کرکے دراندازوں کو روکنے ،آسام کی طرح سبھی ریاستوں میں قومی شہریت رجسٹر بنانے ،دراندازی کے خلاف سخت قانون بنانے،گنگا کے تحفظ کے لئے قانون بنانے ،مٹھوں اور مندروں کی تحویل ختم کرکے انھیں خودمختار بنانے ،آشرموں میں پوجا ارچنا اور مذہبی تعمیرات کو مذہبی کام مان کر انھیں محکمہ انکم ٹیکس سے سہولیات اور رعایتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔