اکیسویں صدی میں انگریزی ترجمۂ قرآن کے میدان میں زبردست کام ہوا :پروفیسر قدوائی

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 11-November-2018

علی گڑھ (پریس ریلیز)’’ ۱۶۴۹ء سے ۱۹۸۰ ء تک انگریزی زبا ن میں صرف بتیس( ۳۲) تراجم موجود تھے، جن میں سے اٹھارہ(۱۸) غیرمسلموں کے قلم سے تھے۔ تقریباً ساڑھے تین سو سال تک اس میدان میں غیر مسلموں کا غلبہ رہا، لیکن ۱۹۸۰ کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوگیا اور اس کے بعد ساٹھ( ۶۰) انگریزی تراجم شائع ہوئے ،جن میں سے چھپّن( ۵۶)مسلمانوں کے قلم سے ہوئے۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں میں صرف آٹھ(۸) تراجم غیر مسلموں کے آئے ہیں، جن میں سے تین(۳) مستشرقین کے اور ایک قادیانی کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عبد الرحیم قدوائی ( ڈائریکٹر خلیق احمد نظامی قرآنک سنٹر ،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ) نے ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے سلسلۂ توسیعی خطبات کے تحت ’ اکیسویں صدی میں قرآن مجید کے انگریزی تراجم۔ چند معروضات‘ کے موضو ع پر ایک جامع ،علمی اور وقیع خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔پروگرام کا آغاز ادارہ کے اسکالر محمد عزیر ندوی کی تلاوتِ قرآن سے ہوا ۔اس کے بعد پروفیسر قدوائی نے نہایت عالمانہ انداز میں بیسویں اور اکیسویں صدی کے انگریزی تراجم پر کلام کیا اور ان کے سلسلے میں تجزیاتی و تنقیدی گفتگو کی۔ انھوں نے یہ محاضرہ پروجیکٹر کے ذریعہ پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ۱۶۴۹ء سے اب تک قرآن مجید کے ایک سو چا لیس( ۱۴۰) انگریزی تراجم ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک سو دس( ۱۱۰) مسلمانوں کے اور تیس ( ۳۰) غیر مسلموں کے ہیں،جن میں مستشرقین اور قادیانی شامل ہیں۔پروفیسر موصوف نے مستشرقین کے مقصدِ ترجمہ پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرمایا کہ مستشرقین قرآن کو نعوذ باللہ محمد ﷺ کی تصنیف اور اسلام کو بائبل سے ماخوذ مانتے ہیںاور لوگوں کو اسلام کے سلسلہ میں گم راہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اسی لیے وہ نبی ﷺ کی کردار کشی میں حد سے گزر جاتے ہیں۔انھوں نے ان کے تراجم پر روشنی ڈالتے ہوئے فرما یا کہ ۱۶۴۹ء میں سب سے پہلا انگریزی ترجمہ ایک مستشرق الگزینڈراس کے قلم سے ہوا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ترجمہ ایک سرقہ تھا۔ ۱۶۴۷ء میں نی وائلڈکے فرانسیسی ترجمے کو اس نے انگر یزی میں منتقل کردیاتھا، کیوں کہ وہ عربی زبان سے بالکل نابلد تھا اور اس نے یہ ترجمہ عثمانی ترکوں کی عظمت و جلال اور ان کی شان و شوکت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ پروفیسر قدوائی نے بتایا کہ اس کے بعد ۱۷۳۴ء میںجارج سیل کا ترجمہ منظر عام پر آیا، جو حد درجہ مشہور ہوا۔اس کے اب تک ایک سو ساٹھ(۱۶۰) ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے صرف امریکہ میں ستّر (۷۰) ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جارج سیل در اصل انگلستان کی ایک عیسائی مشنری اکیڈمی’ سوسائٹی فار پرموشن آف کرسچن نالج‘کا رکن تھا ۔اس اکیڈمی کا مقصد دنیا بھر میں عیسائیت کی تبلیغ کرناتھا۔جارج سیل نے جابجا اپنے ترجمے میں لکھا ہے کہ اس ترجمے کا مقصد لوگوں کو اسلام کے فتنے اور اس کے فراڈ سے آگاہ کرنا ہے۔پروفیسر موصوف نے جارج سیل کے ترجمے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے’ یاایّھاالناس‘ کا ترجمہ ہر جگہ ’ اے مکہ کے لوگو!‘ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قرآن صرف مکہ والوں کے لیے لکھا گیا تھا۔ اسی طرح اس نے لفظ’ عبد‘ کا ترجمہ ’غلام‘ کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ قرآن غلامی کے دور میں نازل ہوا تھا اور اس کے مخاطب زیادہ تر غلام ہی ہیں۔فاضل خطیب نے اکیسویں صدی کے انگریزی تراجم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس صدی میں چوالیس (۴۴) تراجم قرآن شائع ہوچکے ہیںاور عن قر یب آئندہ سال تک آٹھ یا دس اور شائع ہونے والے ہیں۔ ان چوالیس(۴۴) تراجمِ قرآن میں سے بیس(۲۰) آن لائن شائع ہوئے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ ان تراجم میں سے چھتیس (۳۶)مسلمانوں کے ،چار( ۴) مستشرقین کے اورچار( ۴) ان نام نہاد مسلمانوں کے تراجم ہیں جو مستشرقین سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ ان میں عابر عبد اللہ ، علی یورب اور موروثی سلو ب نامی مترجمین شامل ہیں ۔