خواتین کے پاس آپ کے تصور سے کہیں کم اختیار

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 12-November-2018

لندن، سئنیئر عہدوں پر خواتین کے نسبت مردوں کا ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ یہ معاشرے میں بہت عام ہے۔ لیکن جن ممالک میں خواتین بہتر مقامات پر نظر آ رہی ہیں وہاں اس کی وجہ قابل غور ہے۔ ہر جگہ وجہ ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔کچھ ممالک کے بارے میں سننے کو ملتا ہے کہ وہاں کئی بڑے عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔ مثال کے طور پر روانڈا میں نئی کابینہ میں آدھے سے زیادہ خواتین شامل ہیں۔ ایتھیوپیا میں جنسی توازن والی کابینہ کے تعین کے ایک دن بعد روانڈا میں یہ فیصلہ لیا گیا۔دنیا کے اور بھی کئی ممالک میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع مل رہے ہیں اور کئی معاملوں میں تو وہ مردوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں۔سلووینیا میں اگر آپ کسی عدالت میں جائیں تو کسی خاتون جج کے ملنے کے چار گنا زیادہ امکان ہیں. نیمبیا میں خواتین صحافیوں کی بھرمار ہے۔ وہاں کے میڈیا اداروں میں بڑے عہدے بیشتر خواتین کے پاس ہیں۔دنیا بھر کے ممالک بے شک ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ بھی ہے کہ کیا جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہی سچ ہے یا کچھ اور بھی ہے؟امریکی عدالت عظمیٰ میں بریٹ کوانا پر جنسی زیادتی کے الزامات کے باوجود انہیں سپریم کورٹ جج قرار دیے جانے کا تازہ معاملہ آپ کو یاد ہوگا۔ ایک ایسی سپریم کورٹ جس میں نو میں سے تین جج خواتین ہیں ایک طرح کے نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ کئی لوگوں کی نظر میں یہ ایک بے حد طاقتور عہدہ ہے۔برطانیہ کے قانونی نظام میں ججوں کی تقرری ان کے کرئیر میں کافی دیر میں ہوتی ہے۔ ان کے جج بننے میں کبھی مردوں کے غلبے والے نیٹ ورک کا ہاتھ ہوتا ہے تو کبھی ان کے کرئیر میں لیے گئے فیصلوں کی مثالوں کا۔تاہم چند دیگر ممالک جیسے فرانس اور سلووینیا میں ججوں کی طاقت بہت کم ہوتی ہے۔ ان کے یہاں قانونی نظام تحریری اصولوں یا قاعدوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ججوں کے پاس خود تشریح کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ان کی تقرری کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ وکالت میں ڈگری حاصل کرکے انہیں جج بننے کے لیے ایک امتحان پاس کرنا پوتا ہے۔ پاس ہونے پر ٹریننگ مکمل کرتے ہی وہ جج بن جاتے ہیں۔دونوں طرح کے قانونی نظاموں میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ ایک میں تعلیمی قابلیت کو ترجیح دی جا رہی ہے تو دوسرے میں تعلقات کو۔فرانس میں دس میں سے چھ جج خواتین ہیں، لیکن جج ہونے کے باوجود ان کی تنخواہ کم ہوتی ہے۔ بیشتر ججوں کی تنخواہ ذاتی پریکٹس کرنے والے وکلا سے کم ہوتی ہے۔کئی دیگر پیشوں میں خواتین نے اعلیٰ عہدے تبدیلی اور انقلاب کے بعد حاصل کیے ہیں۔مثال کے طور پر بلغاریہ میں کمیونسٹوں کے دور میں صحافت کا محکمہ حکومت کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن سنہ 1989کے بعد صحافیوں کی آزادی کی مہم چھڑنے کے بعد متعدد تعلیم یافتہ خواتین نے اپنا پیشہ بدل ڈالا اور صحافت کی طرف رخ کیا۔ بلغاریہ میں میڈیا اداروں میں خواتین بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔روانڈا کی پارلیمان میں جنس کی بنیاد پر کوٹا کا نظام سنہ 2003 میں متعارف کروایا گیا۔ وہاں ہر دس میں سے چھ رکن پارلیمان خواتین ہیں۔ یہ اعداد و شمار دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ لیکن یہاں بھی سوال یہی اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ان کے پاس اصل طاقت ہے؟روانڈا کے صدر پال کاگامے جو خود ایک مرد ہیں، ان پر آمرانہ حکمرانی کرنے کے الزامات لگتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ خواتین رکن پارلیمان ہونے کی وجہ سے صدر کو حکمرانی میں زیادہ دشواریوں کا سامنا نہیں رہتا ہے۔ لیکن کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ پارلیمان میں خواتین کی زیادہ تعداد سے سماجی سطح پر بہتر اثر پڑتا ہے۔انہیں خاندان اور سماج سے زیادہ عزت ملتی ہے اور وہ اہم فیصلوں کو متاثر بھی کر سکتی ہیں۔ان سب باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کیا سمجھ میں آتا ہے؟خواتین اور عہدوں کے ساتھ آنے والی طاقت کا تعلق سمجھنا مشکل ہے۔ کسی ایک طرح کے اعداد و شمار کی بنیاد پر نتیجہ نہیں پیش کیا جا سکتا ہے۔ بڑی تصویر پر غور کرنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔یعنی برابری کی اس دوڑ میں ابھی بھی بہت لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے۔ تاہم بڑے عہدوں پر خواتین کا ہونا مکمل طور پر طاقت کی نشاندہی نہ بھی کرے، تو بھی اہم ہے۔ کم از کم سماج میں خواتین کو رہنماؤں کے طور پر قبول کرنے کی گنجائش تو بڑھ ہی رہی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی کو مکمل طور پر آنے میں وقت تو لگتا ہی ہے۔