لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 14-November-2018

شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنے ’’مولائے کل دانائے سبل اور ختم الرسل‘‘ کاتعلیم کے حوالہ سے تعارف کراتے ہوئے مذکورہ بالا مصرعہ کہا ہے۔ شاید آپ کی سراپا علم شخصیت کے تعارف کے لئے اس سے بہتر اور اس سے جامع تعبیر ممکن نہیں، آپؐ امی لقب تھے، مگر آپؐ کا وجود الکتاب تھا، لوح وقلم کو آپ پر ناز تھا، آپؐ کو کبھی آلات علم کی احتیاج نہ تھی لیکن آلات علم کو آپؐ نے زینت بخشی، آپ کی آمد سے پہلے علم کی بزم سونی سونی تھی، آپؐ نے اپنی آمد سے اسے رونق عطا کی، آپؐ کی آمد سے پہلے اقطاع عالم میں جہالت کی تاریکیوں نے اپنا ڈیرا جمائے رکھا تھا، معلم انسانیت کے ورود مسعود کے ساتھ جہل کے بادل چھٹ گئے، آفتاب علم ساری دنیا کو منور کرنے لگا،آپؐ سے قبل انسانیت دور جاہلیت سے گذر رہی تھی، آپؐ کی آمد کے ساتھ دنیا میں دور علم کاآغاز ہوا، فاران کی چوٹی سے طلوع ہونے والا آفتاب علم جب علم ومعرفت کی شعاعیں بکھیرنے لگا تو انسانیت کو جہل کی ظلمتوں سے چھٹکارا حاصل ہونے لگا، آپؐ کی بعثت سے قبل انسانی معاشرہ ہر قسم کی اخلاقی وروحانی بیماریوں میں جکڑا ہوا تھا، ظلم وجبر عام تھا، قتل وغارت گری عروج پر تھی، چوری ڈکیتی کمزوروں پر زیادتی روز کا معمول تھا، ناموس زن پر ہر وقت خطرات منڈلاتے رہتے تھے، حوا کی بیٹی کی چادر عصمت بار بار تار تار کی جاتی رہتی تھی، شراب نوشی، جوا، سٹہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھے، ان میں سے ہر برائی انسانیت کیلئے سوہان روح بن چکی تھی، جس سے پورے انسانی وجود ہی کو خطرہ لاحق ہورہا تھا، ایسے میں آپؐ پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی کا آغاز جس لفظ سے ہوا وہ لفظ اقرا تھا گویا اشارہ دیا جارہا تھا کہ پڑھائی اور خواندگی سے محرومی ہی ان ساری اخلاقی بیماریوں کی جڑ ہے، نیز لفظ ’’اقرا‘ سے پہلی وحی کا آغاز کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کو بتادیا گیا کہ عالم انسانی کو عطا کئے جانے والے آخری پیغمبر در اصل پیغمبر علم واخلاق ہیں، اور ان پر نازل ہونے والی آخری کتاب کتاب علم ومعرفت ہے، جس کا سب سے پہلا سبق تعلیم سے متعلق ہے، اور جس کی اولین آیتوں میں دو مرتبہ پڑھنے دو مر تبہ سکھانے اور ایک مرتبہ علم کے آلہ قلم کا ذکر کیا گیا ہے، پہلی وحی کے نزول کے موقع پر سارے عرب شرک وبت پرستی کا شکار تھے، اس پس منظر میں اولین وحی کیلئے یہ موزوں تھا کہ اس میں خدائے واحد کی واحدنیت کی تاکید کی جاتی لیکن اس کے بجائے’’پڑھنے‘‘ کی تاکید کرکے یہ اشارہ دیا گیا کہ ساری خرابیوں کی جڑ جہالت ہے، معلم انسانیت پر نازل ہونے والی کتاب قرآن میں قلم کے نام سے ایک مستقل سورت نازل کی گئی، خدائے رحمان کی اس عظیم الشان کتاب میں سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ کا تعارف یوں کرایا گیا کہ اللہ نے انہیں علم الاسماء عطا فرمایا،فرشتوں پر آدم علیہ السلام کاتفوق علم کے ذریعہ ثابت کیا گیا اور جب فرشتے عاجز آگئے تو پھر آدم کے آگے سجدہ ریز ہونے کاحکم دیا ہے، معلم انسانیت پرنازل کی گئی کتاب میں سات سو پچاس بار علم اور اس سے مشتق الفا ظ استعمال کئے گئے، یہی نہیں بلکہ لفظ علم کو قرآن میں دین کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا، یہ تاثر دینے کیلئے کہ مذہب اسلام سراسر علم ہے۔

پیغمبر علم واخلاق پر نازل ہونے والی کتاب بر ملا اعلان کرتی ہے کہ عالم اور جاہل دونوں برابر نہیں ہوسکتے، جس طرح روشنی اور تاریکی برابر نہیں ہوسکتے ، جس طرح مردے اور زندے برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح اصحاب علم اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان والوں میں جو اصحاب علم ہیں ان کے عام مومنوں کے مقابلہ میں درجات بلند ہیں، قرآن مجید میںمختلف پیغمبروں کی دعائیں نقل کی گئی ہیں، آخری پیغمبر معلم انسانیت کو اللہ تعالیٰ نے جس دعا کی تلقین فرمائی وہ ’’رب زدني علما‘‘ہے اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما، معلم انسانیت ﷺ کی علم نوازی اور تعلیم سے آپ کے گہرے رشتہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے تعلیم کتاب وحکمت کو آپ کی بعثت کے اساسی مقاصد میں شمار کیا۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ (الجمعۃ: ۲

وہی خدا ہے جس نے امیوں میں انہیں میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، خود نبی کریمؐ نے بھی حسن اخلاق کی تکمیل اور تعلیم کو اپنی بعثت کے بنیادی مقاصد قرار دیا، ارشاد فرمایا: ’’انما بعثت معلما‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲۲۹

ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے معلم اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(صحیح مسلم: ۱۴۷۸

نیز آپؐ نے اپنے لئے ’’مدینۃ العلم‘‘یعنی شہر علم کا لقب پسند فرمایا، چنانچہ فرمایا: ’’انا مدینۃ ا لعلم وعلی بابہا‘‘

میں شہر علم ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں، شہر علم کا لقب اپنے لئے موزوں سمجھنے والے پیغمبر کی نگاہوں میں تعلیم کی کس قدر اہمیت ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے بقدر ضرورت دینی تعلیم کو ہر مسلمان مرد وعورت کیلئے ضروری قرار دیا، چنانچہ آپ کا ارشاد ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ زبان زد خاص وعام ہے، آپ نے علم کو روشنی قرار دیا، آپ نے حصول علم کی راہ طے کرنے والے طالب علم کے بارے میں فرمایا کہ فر شتے اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، خدا کی ساری مخلوق طالب علم کے لئے دعا کرتی ہے حتی کہ بلوں میں رہنے والے زہریلے جانور اور سمندرکی مچھلیاں تک اس کے لئے دعائیں کرتی ہیں، آپؐ نے فرمایا کہ جو طالب علم حصول علم کے راستہ پر چلتا ہے وہ در اصل جنت کا راستہ طے کررہا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے، (مسند بزار) نیز آپ نے فرمایا کم علم اس کثیر عبادت سے بہتر ہے جو جہالت کے ساتھ ہو(طبرانی) آپ نے حضرت ابو ذرؓ سے فرمایا اے ابو ذرؓ صبح ہوتے ہی تم اللہ کی کتاب سے ایک آیت سیکھ لو، اس سے بہتر ہے کہ تم ایک ہزار رکعتیں اداکرو۔(سنن ابن ماجہ) حدیث کی بیشتر کتابوں میں علم سے متعلق پورے باب ملتے ہیں، مثلا بخاری شریف کو لیجئے جس میں وحی اور ایمان کے ابواب کے بعد علم کا باب شروع ہوجاتا ہے، جس میں حافظ ابن حجر کے قول کے مطابق ۸۶؍ مرفوع حدیثیں ہیں اور صحابہ وتابعین کی ۲۲؍روایات ہیں، پیغمبر علم واخلاق نے روز اول سے حصول علم پر زور دیا آپ نے علم کو مومن کا گمشدہ خزانہ قرار دیا، گمشدہ دولت وہ ہوتی ہے جسے پانے کے لئے آدمی ہر لمحہ بے قرار رہتا ہے اور اس کے لئے مستقل جد وجہد میں لگا رہتا ہے، کسی خاتون کا زیور کھوجائے تو دیکھئے وہ کس قدر بے چین ہوجاتی ہے، اور جب وہ مل جاتا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔

یہی حال ایک مسلمان کا ہونا چاہئے، تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرامؓ کیلئے آپ نے دار ارقم میں تعلیم کا انتظام فرمایا جو کوئی مسلمان ہوتا وہ چپکے سے دار ارقم پہنچ جاتا اور وہ حضورؐ سے اسلامی عقائد کی ضروری تعلیم لیتا، مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کے بعد ہجرت کرنے والے مہاجرین کے سینکڑوں مسائل حل کرنے کے بجائے آپ نے مرکز تعلیم مسجد نبوی کی تعمیر پر توجہ فرمائی اور مسجد سے لگ کر ایک چبوترہ بنایا گیا جس میں تعلیم کا بندوبست کیا گیا،پیغمبر علم واخلاق کی نگاہوں میں تعلیم کس قدر اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں قید کئے گئے کفار کی رہائی کیلئے پہلا فدیہ یہ مقرر کیا گیا کہ لکھنا پڑھنا جاننے والے قیدی دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، اگر چہ حقیقی علم وہ ہے جو بندے کو خدا کی معرفت عطا کرے لیکن آپؐ نے انسانیت کیلئے مفید ہر علم نافع کی حوصلہ افزائی فرمائی، آپؐ نے صحابہؓ کو سریانی اور عبریانی زبانیں سیکھنے کی تلقین فرمائی، زید بن ثابتؓ ودیگر صحابہ کرامؓ نے آپ کی ہدایت پر عبرانی زبان سیکھیں، آپؐ نے فن طب سے متعلق اہم خطوط وضع فرمائے۔ جنگی معاملات میں ماہرین کی رائے کو اہمیت دی، ایک مرتبہ آپؐ حضرات صحابہؓ کے پاس تشریف لائے، صحابہ دو حلقوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک حلقہ ذکر میں مشغول تھا، دوسرا سیکھنے سکھانے میں مصروف تھا، آپ نے دیکھا تو فرمایا، دونوں بھلائی پر ہیں، پھر آپ تعلیم کے حلقہ میں بیٹھ گئے، آپ کی اسی تربیت کا نیتجہ تھا کہ مسلمان عہد رسالت اور اس کے بعد زمانوں میں تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا، قرون اولیٰ میں میںعلم کے ذرائع محدود تھے، زمانہ کی رفتار کے ساتھ ان میں ترقی ہوتی گئی، عباسی خلیفہ مامون رشید نے ۲۱۵ ء میں بیت الحکمۃ قائم کیا جو گویا علمی انجمن تھی، اس میں ایک رسد خانہ اور پبلک لائبریری تھی، اس کام کے لئے مامون نے دو لاکھ درہم خرچ کئے، جو اس زمانہ کے اعتبار سے سات ملین سے زیادہ ہوتے ہیں اور مترجمین کا ایک ایسا گروہ ملازم رکھا جو مختلف زبانوں اور علوم میں مہارت رکھتے تھے۔(تاریخ تمدن۱۱؍۱۴۷) اسی طرح مامون نے ابن طریق اور حجاج بن مطرح جیسے لوگوں کو جو مختلف زبانوں کے ماہر تھے، دوسرے ممالک اس لئے بھیجا کہ وہاں سے ہر فن کی علمی کتابیں مثلا طب، فلسفہ، ریاضی کی تصانیف جو، عبرانی، یونانی زبانوں میں لکھی گئی تھیں، خرید خرید کر بغداد روانہ کریں، ان لوگوں نے بہت قیمتی کتابیں خرید کر بغداد روانہ کیا، مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کتابوں کو سو انٹوں پر لا دا گیا تھا۔ (دائرۃ المعارف القرن العشرین

یورپین مصنفین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، ڈاکٹر گوسٹاولے لے لیبون لکھتا ہے کہ جس زمانہ میں کتاب ولائبریری یورپ والوں کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی، اور تمام کلیساؤں میں راہبوں کے پاس سوسے زائد کتابیں نہ تھیں، اور وہ بھی مذہبی تھیں، اس وقت بھی اسلامی ممالک میں کافی سے زائدکتابیں اور لائبریری تھیں، خود بغداد کی لائبریری بیت الحکمہ میں چار ملین اور قاہرہ کی لائبریری میں ایک ملین اور طرابلس کی لائبریری میں تین ملین کتابیں تھیں، اور تنہا اسپین میں سالانہ ستر اسی ہزار کتابیں اکٹھا کی جاتی تھیں۔(تاریخ اسلام وعرب۳؍۳۲۹

پیغمبر علم واخلاق کے تعلیمی انقلاب کا اثر تھا کہ دنیا سائنس ٹکنالوجی سے واقف ہوئی اور اہل یورپ نے اولین مسلم سائنسدانوں کی مبادیات پر سائنس وٹکنالوجی کی عمارت کھڑی کردی، اس وقت سارا عالم جس علمی انقلاب کیوجہ سے جگمگ جگمگ کررہا ہے، وہ اسی الکتاب کی شان رکھنے والے پیغمبر کی دین ہے، اگر حرا سے علم کا یہ آفتاب طلوع نہ ہوتا تو آج دنیا سائنس وٹکنالوجی سے کوسوں دور ہوتی، نبی کے علمی انقلاب کا اثر تھا کہ مسلم اہل علم نے کتابوں کے انبار لگادئیے۔ امام محمد کی تالیفات ایک ہزار کے قریب ہیں، ابن جریر کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار اوراق لکھے، امام غزالی نے ۷۸ کتابیں لکھیں، جس میں صرف یاقوت التاویل چالیس جلدوں میں ہے، ابن جوزی کے آخری غسل کے واسطے پانی گرم کر نے کے لئے وہ برادہ کافی ہوگیا تھا جو صرف حدیث لکھتے ہوئے ان کے قلم بنانے میں جمع ہوگیا تھا، مشہور فلسفی اور طبیب ابن سینا کی تصانیف میں الحاصل والمحصول ۲؍ جلدوں میں ، الانصاف ۲۰؍ جلدوں میں، الشفاء ۱۸؍ جلدوں میں ہیں، لسان العرب ۱۰؍ جلدوں میں ہے، نویں صدی کے مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری ۱۴؍ جلدوں میں، تہذیب التہذیب ۹؍ جلدوں میں، الاصابہ ۵؍ جلدوں اور لسان المیزان ۴؍ جلدوں میں ہے۔

مگر افسوس جس پیغمبر علم واخلاق اور معلم انسانیتؐ نے اپنی امت کوتعلیم واخلاق کی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا، آج وہ امت علم سے اپنا رشتہ توڑتی جارہی ہے، جب تک مسلمان علم کی تلاش میں سر گرداں رہے، پوری دنیا میں سر فراز رہے، مسلمانوں نے مدتوں علم کی بستیاں بسائیں، اور مدتوں علم کی بستی کی حکومت ان کے ہاتھوں میں رہی، لیکن آج وہ دوسروں کی بسائی ہوئی بستیوں میں ان کے لب ولہجہ اور ان کے افکار ونظریات میں علم پڑھ رہے ہیں، آج پورے عالم میں مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ قوم سمجھی جانے لگی ہے، اس وقت دنیا بھر میں ۷۰ ؍ملین بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، تعلیم واخلاق ہماری زندگی کے بنیادی عناصر ہیں، مسلمانوں میں تعلیم کا شعور پیدا کرنا اور عصری تعلیم کے اثرات بد سے ان کی حفاظت کرنا وقت کا تقاضا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے روشن ماضی سے عبرت حاصل کریں، وہ ہمارے ہی آباء تھے جنہوں نے سائنسی علوم کی بنیاد ڈالی، جابر بن حیان نے کیمسٹری کے علم کی ابتداء کی، اور آٹھ صدیوں تک اس کی کتابیں دنیا کی ہر زبان میں پڑھا ئی جاتی رہیں، اس نے دھاتوں کے اجزائے ترکیبی بیان کئے، ابو عثمان جاحظ نے کتاب الحیوان لکھ کر بیالوجی کے مضمون کا آغاز کیا، موسی خوارزمی نے ریاضی میں صفر کا آغاز کیا اور ایک سے نوتک ہندسوں کو علیحدہ ترتیب دیا، ابن فرناس ستاروں کی گردش کاماہر تھا جس نے سب سے پہلے گھڑیال اور ROCHCRYSTAL ایجاد کئے، طب میں اسحاق بن حنین الجبرا میں الماھاتی فلکیات میں، سنانی جغرافیہ میں الحمدانی کو فراموش نہیں کیاجاسکتا، المجوسی نے شریانیوں کاعلم دریافت کیا اور پہلی دفعہ دندان کاعلم دنیا تک پہنچایا، ابو القاسم زہراوی نے سر جری کا آغاز کیا اور اس کے آلات بنائے، ابن الہیثم نے بصارت کے عمل کیمرہ اور کشش ثقل پر بحث کی جسے بعد میں نیوٹن کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، الغرض ہمارے آباء کے علمی کارناموں کی طویل فہرست ہے، ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے، تبھی ہم معلم انسانیت کے حقیقی امتی کہلائیں گے۔