کشن گنج کے ایم پی مولانا اسرارالحق قاسمی ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 08-November-2018

نئی دہلی/،کشن گنج (یو این آئی)کشن گنج سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اورمعروف قومی و ملی رہنما مولانا اسرارالحق قاسمی کو ان کے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے آبائی گاوں ٹپو کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔مولانا کادیر رات دل کا دورہ پڑنے سے ساڑھے تین بجے کشن گنج کے سرکٹ میں انتقال ہوگیا تھا۔مولاناکی نماز جنازہ میں سیمانچل بلکہ سارے ہندوستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں ارریہ کے ایم پی سرفرازاحمد،بنگال کے وزیر غلام ربانی ،ایم ایل اے حاجی سبحان،ایم ایل اے شکیل احمدخان، سابق ایم ایل اے اَخترالایمان سمیت درجن بھر سے زائد ممبران اسمبلی وممبران پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری افسران نے شامل ہیں۔ مولانا کی نماز جنازہ ملی گرلس اسکول کے احاطے میں ادا کی گئی۔ کشن گنج سے رکن پارلیمنٹ وف سیاسی و ملی رہنمامولانا اسرارالحق قاسمی دارالعلوم دیوبند کے مجلس شوری کے رکن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر تھے ۔ ان کی عمر 76 برس کی تھی اور پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ مولاناکے بڑے داماد فیاض عالم نے بتایا کہ مولانا کل رات کسی پروگرام سے واپس آئے تھے اور کشن گنج کے سرکٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مولانا جب رات تین بجے تہجد کی نماز کے لئے اٹھے تو انہیں درد محسوس ہوا۔ انہوں نے سیکورٹی والوں کو بلوایا اور کہا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔جب انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایاجارہا تھا انہوں نے کہا میں آللہ کے پاس جارہاہوں۔ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کردینا۔ مولانا نےیہ بھی کہا کہ سب لوگ مجھے معاف کردیں اور میرے لئے مغفرت کی دعا کریں۔مولانا قاسمی کشن گنج سے دوبار رکن پارلیمنٹ رہے۔ کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کے قیام میں بہت اہم رول رہا اور پوری تحریک کی قیادت کی تھی۔ یہ سنٹر کٹیہار میں قائم ہونے والا تھااسے کشن گنج لیکر آئے اور آخری عمرتک اس سنٹر کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مولانا جمعیۃ علمائے ہند (متحدہ) کے دس سال تک جنرل سکریٹری بھی بھی رہے تھے۔ مولانا نے مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمتہ اللہ کے ساتھ ملکر ملی جمعیتہ قائم کی تھی۔ اس کے بعد وہ ملی کونسل کے اسسٹنٹ سکریٹری جنرل بنائے گئے تھے۔ ان کی قیادت اور تنظیمی تجربہ کی بنیاد پر ملی کونسل ایک وقت ملک کی بڑی جماعت بن گئی تھی۔مولانا قاسمی جو دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے،انہوں نے ملی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن قائم کیا تھا۔ جس کے تحت فلاحی کام کئے جاتے تھے۔ ملک میں متعدد مدارس و مکاتب چل رہے تھے۔ مولانا نے عصری تعلیم کے میدان میں بھی کام کیا تھا۔ انہوں نے کشن گنج کے اپنے آبائی گاؤں میں لڑکیوں کا بارہویں کلاس کا ایک معیاری ملی گرلس اسکول قائم کیا تھا۔ جس کا معیار دینی تعلیم کے ساتھ کسی بھی معیاری اسکول سے کم نہیں ہے۔اسی کے ساتھ مولانا ہندوستان میں پھیلے سیکڑوں مدارس کے سرپرست تھے اور مدارس کے پروگراموں میں شرکت کو ترجیح دیتے تھے۔مولانا اسرار الحق کے انتقال پر وزیر اعظم نریندر مودی ، کانگریس صدر راہل گاندھی ،غلام نبی آزاد،ملک ارجن کھڑگے ،بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب سربراہ عمر عبداللہ سمیت کئی قومی اور ریاستی رہنمائوں نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ملک کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہاکہ مولانا اسرار الحق کے انتقال سے صدمہ پہنچا ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں میری تعزیت و ہمدردی ان کے اہل خانہ اور حامیوں کے ساتھ ہے۔ راہل گاندھی نے پارٹی کے سینئر ممبر پارلیمنٹ کے انتقال پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’کشن گنج سے کانگریس کے ہر دلعزیز ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کے انتقال کی خبر بے حد دکھ دینے والی ہے۔ میں اسرار الحق صاحب کے اہل خانہ کے تئیں اپنے گہرے رنج کا اظہارکرتے ہوئے انہیں تعزیت پیش کرتا ہوں۔‘‘مسٹر کھڑگے نے کہا کہ ’’مولانا اسرار الحق صاحب کے انتقال کی خبر سن کر بہت بڑا جھٹکا لگا۔ ہم نے ایک بڑے اقلیتی لیڈر کھو دیا ہے۔ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی یکجہتی کے لئے کام کرتے تھے۔ لوک سبھا میں ہمیشہ وہ اپنی بات کو اچھی طرح سے پیش کرتے اور اقلیتوں کے مفادات سے جڑے معاملوں پر ہمہ جہت گفتگو کرتے تھے۔ غلام نبی آزاد نے اپنے تعزیت میں کہا کہ ’’ مجھے اسرارالحق صاحب کے انتقال کی خبر سن کر بہت دھکا پہنچا۔ وہ کشن گنج بہار میں ہردلعزیز لیڈر تھے اور وہ مسلسل دوسرے مرتبہ اسی سیٹ سے لوک سبھا میں اپنے علاقے کی نمائندگی کررہے تھے۔ اپنے علاقے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کھولوانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وزیراعلی نتیش کمار نےمولانا اسرارالحق قاسمی کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا اسرار الحق قاسمی سیاست میںنرم مزاج اوراپنی سادگی کے لیے مشہور تھے۔نتیش کمار نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ رکن پارلیمنٹ محمد اسرارالحق قاسمی سیاسی دنیا میں اپنے نرم مزاج اور صاف دلی کے لئے جانے جاتے تھے۔سماجی کاموں میں ان کی گہری دلچسپی تھی اور وہ اپنے حلقے میں کافی مقبول تھے۔انہوں نے کہا کہ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں ان کا اہم رول تھا۔وزیراعلی نے کہا کہ مسٹر قاسمی کے انتقال سے سماجی اور سیاسی حلقے کوناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ محمد اسرارالحق قاسمی کی آخری رسومات ریاستی اعزاز کیساتھ ادا کی جائیں گی۔انہوں نے خدا سے مرحوم کی روح کو سکون پہنچانے اور ان کے سوگوار لواحقین اور حامیوں کو اس مشکل وقت میں صبردینے کی دعا کی۔اظہار تعزیت کرنے والی شخصیات میںآرجے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو، سابق وزیراعلیٰ رابڑی دیوی ، اپوزیشن لیڈرتیجسوی یادو،تیج پرتاپ یادو ، میسا بھارتی ،شردیادو،پروفیسر غلام غوث امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی ،دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی،دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی،مولانا بدرالحسن قاسمی کویت،شیخ الحدیث مولانا افتخار حسین مدنی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر،جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی ،زکوۃ فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر محمود،مولانا عبدالحمید نعمانی ،مولاناحکیم افضل قاسمی ،مولانا ابوالکلام شمسی ،مسعود جاوید،مفتی اشرف عباس قاسمی ،راشٹریہ علماء کونسل کے مولانا طاہر مدنی ،جمعیۃ علمائے بہار کے صدر مولانا محمد قاسم ،جامعہ ربانی منورواشریف کے مہتمم مفتی اختر امام عادل،،جمعیۃ علمائے مہاراشٹر کے مفتی حذیفہ قاسمی ،جمعیۃ علماء گجرات کے صدر مولانا اسجد قاسمی ،طیب ٹرسٹ دیوبند کے چیئر مین حافظ عاصم ،جمعیۃ علماء ہریانہ کے ناظم اعلیٰ مولانا علی حسن مظاہری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے متعدد سیاسی، سماجی، علمی، معاشی اور دیگر لوگوں نے مولاناکے انتقال کو عظیم خسارہ قرار دیتے ہوئے اظہار تعزیت کیا ہے۔