امرناتھ یاتریوں پرحملے کے لئے استعمال کی گئی تھی پی ڈی پی ممبراسمبلی کی گاڑی: این آئی اے

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 21-January-2019

قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی جانچ میں سامنے آیا ہے کہ جولائی 2017 میں امرناتھ یاتریوں کی بس پرہوئے حملے کے لئے دہشت گردوں نے مبینہ طورپرسابق پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ممبراسمبلی اعجازاحمد میرکی گاڑی کا استعمال کیا تھا۔ اس حملے میں 7 لوگوں کی موت ہوگئی تھی اورتقریباً 20 لوگ زخمی ہوئے تھے۔حملہ سری نگرجموں ہائی وے پراننت ناگ کے قریب ہوا تھا۔ این آئی اے کے ڈی ایس پی رویندرنے اس متعلق جموں وکشمیرپولیس کے ایڈیشنل ڈی جی پی کوخط لکھا ہے کہ اعجازاحمد میرکا جھکاوعلاحدگی پسندوں کی طرف ہے اورامرناتھ یاتریوں پرہوئے حملے میں ان کی ایک گاڑی کا استعمال ہوا تھا۔جانچ ایجنسی نے پولیس سے سابق ممبراسمبلی کا کرائم ریکارڈ اورانٹیگریٹی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ اعجازاحمد میرجنوبی کشمیرکے شوپیاں ضلع کی واچی اسمبلی سیٹ سے ممبراسمبلی تھے۔ حملے کے کچھ دنوں بعد پولیس نے میرکے ڈرائیورتوصیف احمد وانی کو گرفتارکیا تھا۔ جموں وکشمیرپولیس کی سیکورٹی محکمہ نے توصیف احمد کی ڈیوٹی اعجازمیرکے ساتھ لگائی تھی۔ گرفتاری کے وقت پولیس نے کہا تھا کہ توصیف کے تعلقات دہشت گردوں سے ہیں۔گزشتہ سال 28 ستمبرکواعجازاحمد میرکے پرسنل سیکورٹی افسرکے طورپرتعینات ایک ایس پی اوعادل بشیراپنے ساتھیوں کے7 رائفل اوراعجازمیرکی پستول چراکربھاگ گیا تھا۔ میرنے کہا کہ جب یہ حادثہ ہوا تب وہ جموں میں تھے۔اس کے بعد عادل دہشت گردوں کی جماعت میں شامل ہوگیا، اس نے سوشل میڈیا پرتصویریں بھی جاری کی تھیں۔ پولیس میں شامل ہونے سے قبل عادل پی ڈی پی کے لئے کام کرتا تھا اور وہ میرکی انتخابی ریلیوں میں شامل ہوچکا ہے۔ حال میں وہ سرگرم ملی ٹینٹ ہے۔ عادل کے فرارہونے کے بعد کشمیرمیں سیکورٹی ایجنسیاں الرٹ پرآگئی تھیں۔ ریاست میں ڈرائیوروں کے علاوہ لیڈروں اوروی آئی پی کی سیکورٹی میں تعینات سبھی ایس پی اوکوہٹا دیا گیا تھا۔سابق ممبراسمبلی نے گزشتہ سال کشمیرمیں مارے جانے والے دہشت گردوں کو’شہید’ قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان پرزبردست ہنگامہ ہوا تھا۔ بی جے پی نےان کے بیان کی سخت تنقید کی تھی اورجانچ کا مطالبہ کیا تھا۔ میرنے تب کہا تھا کہ وہ کسی بھی جانچ کے لئے تیارہیں۔ اعجازاحمد میرنے نیوز18 سے کہا تھا “این آئی اے کوجانچ کرنے دو۔ میں اس کے لئے تیار ہوں اورمیں ان کا پورا تعاون کروں گا”۔اعجازمیرسے جب کہا گیا کہ انہیں سافٹ سیپریٹسٹ کہا جاتا ہے تواس پراعتراض درج کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1994 میں ان کے والد نے الیکشن لڑا تھا اوراس وجہ سے ان کے اہل خانہ پرعلاقہ چھوڑنے کا دباوبنایا گیا تھا۔ میرنے کہا “ہمارا خاندان تب سے ہی الیکشن لڑرہا ہے اوراس وجہ سے ہمیں بھی مشکل دورکا سامنا کرنا پڑا۔ ایجنسی جانچ کرنا چاہتی ہے توکرے، لیکن مجھے سافٹ سیپریٹسٹ جیسے نام نہ دے۔ اس سے ایجنسیوں اورجانچ پرہمارا اعتماد کمزورہوتا ہے”۔گزشتہ سال نومبرمیں جب میرممبراسمبلی تھے تب پی ڈی پی نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی این آئی اے کے ذریعہ ان پرپارٹی میں شامل ہونے کا دباو بنارہی ہے۔ نیوز 18 نے این آئی اے کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے بات نہیں ہوپائی۔ جموں وکشمیرپولیس نے بھی اس معاملے میں تبصرہ کرنے سے انکارکیا ہے۔ حالانکہ نام نہ شائع کرنے کی شرط پرایک افسرنے بتایا کہ اس معاملے میں جانچ جاری ہے۔