لبنان : بیٹے نے ماں کے قاتل باپ کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر دیا

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 15-February-2019

بیروت،”مجھے اپنی ماں پر فخر ہے … یہ اس کا اور ہمارا حق ہے … اس شخص نے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کی اْسے سزا ملنی چاہیے”۔ یہ وہ جذبات تھے جن کا اظہار لبنانی شہری علی الذین کے جواں سال بیٹے محمد نے بدھ کی شام العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ محمد نے اپنے والد کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا ہوا ہے جس نے اس کی 47 سالہ ماں سارہ الامین کو موت کی نیند سلا دیا۔یہ اندوہ ناک واقعہ 19 مئی 2015 کو لبنان کے ایک گاؤں دوحہ عرمون میں اْس وقت پیش آیا جب علی الزین نامی شہری نے کلاشنکوف کے ذریعے اندھادھند فائرنگ کر کے اپنی چھ بچوں کی ماں سارہ الامین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ فائرنگ کی آواز سے تمام بچے بیدار ہو گئے تو انہوں نے اپنی ماں کو خون میں لت پت پایا جو فوری طور پر دم توڑ چکی تھی۔عدالت میں عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ علی الزین اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا اور اس نے سارہ کو بچوں سمیت گھر سے بھی نکال دیا تھا۔دو روز قبل ملزم علی الزین کا 21 سالہ بیٹا محمد پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی میں پیش ہوا۔ اس نے اس امر کی تصدیق کی کہ ملزم مسلسل اسے اور اس کی بہنوں اور ماں کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا۔ محمد نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ اس کے باپ کو سزائے موت دی جائے۔ لبنانی معاشرے میں یہ اپنی نوعیت کا نادر واقعہ ہے جس میں ایک بیٹے نے اپنے باپ کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔محمد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ اس کی ماں نے تو کبھی کسی چیونٹی کو بھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ محمد نے بتایا کہ اس کی تمام بہنیں بھی اس بات کی خواہش مند ہیں کہ جیل میں قید ان کے والد کو موت کی سزا دی جائے۔سارہ الامین اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس نے علی الزین سے شادی کی جو عمر میں اس سے آٹھ برس بڑا تھا۔ دونوں کے چھ بچے ہوئے جن میں پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد ہے۔عدالتی کارروائی کو 9 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس دوران ڈاکٹروں کی ٹیم کی رپورٹ پیش کی جائے گی اور ڈاکٹر یوسف فارس کا بیان قلم بند کیا جائے گا۔مقدمے میں سارہ الامین کے وکیل اشرف الموسوی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو میں محمد کی دلیری کو سراہا۔ وکیل نے بتایا کہ عدالتی سماعت کے دوران وہ کلاشنکوف بھی پیش کی گئی جس کے ذریعے علی الزین نے سارہ کے جسم میں گولیاں اتاری تھیں۔ الموسوی کے مطابق “ملزم کسی طرح کے طبی یا اعصابی مسائل کا شکار نہیں ہے۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر پوری طرح صھت مند ہے۔ اس نے پورے ہوش حواس میں اپنے بچوں کے سامنے اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اتارا اور اگر پڑوسیوں کی مداخلت نہ ہوتی تو قریب تھا کہ وہ اپنی اولاد کو بھی موت کی نیند سلا دیتا “.سال 2017 میں متعلقین یا رشتے داروں میں سے کسی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے نتیجے میں 17 لبنانی خواتین زندگی سے ہاتھوں دھو بیٹھیں۔ سال 2018 میں صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران 8 خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔