اپنے جرات آمیز بیانیہ کے حوالے سے ’’تزک بابری‘‘ دنیا کی سب سے اچھی خودنوشت ہے: پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین ہمدانی

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 14-March-2019

نئی دہلی (پریس ریلیز)شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اردو اکادمی دہلی کے مالی تعاون سے ’’اردو میں غیر افسانوی ادب‘‘ (۱۹۰۱ء تا حال) کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے دوسرے دن تین تکنیکی اجلاس کا انعقاد ہوا، جن میں کل بیس مقالے پیش کیے گئے۔ دوسرے اجلاس میں پروفیسر خالد محمود نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ غیر افسانوی ادب صحیح معنوں میں جس توجہ کا مستحق تھا اس کا یہ حق اس کو نہیں دیا گیا اور بیشتر لوگوں نے غیر افسانوی اصناف کو ثانوی درجے کا ادب قرار دیا۔ جب کہ سنجیدہ تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اعلیٰ درجے کا ادب ہے۔ اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر سید حسن عباس (ڈائرکٹر رضا لائبریری رام پور)نے کہا کہ اجلاس میں پیش کیے گئے تمام مقالوں سے غیر افسانوی نثر کی علمی، ادبی اور تہذیبی اہمیت و افادیت روشن ہوجاتی ہے۔ دوسرے اجلاس میں ڈاکٹر خالد جاوید نے ’’افسانوی اور غیر افسانوی نثر: فلسفیانہ اور بیانیاتی تناظر‘‘، ڈاکٹر خالد مبشر نے ’’غیر افسانوی ادب کے امتیازات‘‘، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے ’’بیسویں صدی کے چند نمائندہ انشائیے‘‘، ڈاکٹر علی عباس نے ’’اردو کا پہلا نثری سفرنامہ ‘‘، روی بارسادہ (کیلی فورنیا) نے ’’عبیداللہ سندھی کے نودریافت خطوط‘‘ اور ڈاکٹر محمد مقیم نے ’’بیسویں صدی کے انشائیوں کا اسلوب‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالات پیش کیے۔ تیسرے اجلاس میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین ہمدانی نے کہا کہ خود نوشت میں جب تک اپنی ذات کے حوالے سے بے دردی اور جسارت کے ساتھ نقاب کشائی کا عمل نہ ہو تو اس صنف کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں تزک بابری دنیا کی عمدہ ترین خودنوشت ہے۔اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ کلیدی خطبے سے لے کر اب تک جتنے مقالے پیش کیے گئے ہیں وہ افسانوی ادب کی تحقیق و تنقید میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے اور امید ہے کہ یہ مقالے جب کتابی صورت میں شائع ہوں گے تو علمی دنیا میں اس کا بھرپور استقبال ہوگا۔اس اجلاس میں پروفیسر سید حسن عباس نے ’’بیسویں صدی کی چند نمائندہ سوانح‘‘، پروفیسر کوثر مظہری نے ’’شکیل الرحمن کا آشرم ماضی کا پراسرار مرقع‘‘، ڈاکٹر خان احمد فاروق نے ’’بیسویں صدی کے نصف اول میں انشائیہ نگاری‘‘، ڈاکٹر احمد کفیل نے ’’اردو کے اہم مکتوب نگار‘‘، ڈاکٹر مشیر احمد نے ’’اردو میں مضمون نگاری کا فن آغاز و ارتقا‘‘ اور محترمہ کمولا (ازبکستان)نے ’’تزک بابری کے اردو تراجم‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔چوتھے اجلاس کے صدارتی خطبے میں پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ ہر زبان میں غیر افسانوی ادب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس لیے کہ ادب کا بڑا سرمایہ اسی میں ہوتا ہے اور حقائق پرمبنی بھی ہوتا ہے۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ غیر افسانوی ادب کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے، اس اعتبار سے اس سمینار کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ اس اجلاس میں پیش کیے گئے مقالات صحیح معنوں میں وقیع اور عالمانہ تھے۔ اس اجلاس میں پروفیسر عراق رضا زیدی نے ’’بیسویں صدی کی چند نمائندہ خود نوشت‘‘، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے ’’روزنامچہ نگاری ایک جائزہ‘‘، ڈاکٹر عبدالعزیز نے ’’اردو میں رپورتاژ نگاری : آغا ز و ارتقا‘‘، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے ’’بیسویں صدی کے نصف اول میں خاکہ نگاری‘‘، ڈاکٹر سرور ساجد نے ’’بیسویں صدی کے چند نمائندہ خاکے: تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘، ڈاکٹر مجاہد الاسلام نے ’’بیسویں صدی میں سوانح نگاری ایک جائزہ‘‘، ڈاکٹر ثاقب عمران نے ’’بیسویں صدی میں دہلی کے دو نمایاں انشائیہ نگار‘‘ اور رکن الدین نے ’’اردو روزنا مچہ نگاری کا فن اور آغاز و ارتقا‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالا ت پیش کیے۔ مختلف اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر محمد آدم، اور ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے انجام دیے۔اس موقع پر جاپان کے مندوب پرو فیسر ماتسو مورا، پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی، پروفیسر علی جاوید، پروفیسر عبدالحلیم، پروفیسر اقتدار احمد خاں، ڈاکٹر یوسف وانی، ڈاکٹر معراج الدین(کشمیر)، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر انوار الحق، عمران عظیم ایڈوکیٹ کے علاوہ شعبے کے اساتذہ پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر سید تنویر حسین،ڈاکٹر حنا آفرین، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر جاوید حسن،ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر سعود عالم، مہرفاطمہ، مہوش فاطمہ اورشاداب شمیم کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبا و طالبات موجود تھے۔