جرمن فوج میں شدت پسند افشا کردہ تعداد سے کہیں زیادہ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 12-March-2019

برلن، جرمن فوج میں موجود دائیں بازو کے شدت پسند اہلکاروں کے بارے میں تفتیش کرنے والے ادارے نے اس مسئلے کی شدت کو کم کر کے بیان کیا۔ یہ بات ایک تازہ رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔جرمن فوج میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کی تعداد اندازوں سے زیادہ ہے۔ جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسند ہونے کے شبے میں بے نقاب اور نکالے جانے والے فوجی اہلکاروں کی اصل تعداد اْس سے کہیں زیادہ تھی جو منظر عام پر لائی گئی۔فوج میں نگرانی کا خفیہ ادارہ’ایم اے ڈی‘ پہلے ہی اس حوالے سے غلط اعداد و شمار پیش کرنے میں اپنی غلطی تسلیم کر چکا ہے۔ ‘ایم اے ڈی‘ نے بتایا تھا کہ 2018ء میں دائیں بازو کے چار شدت پسند اور تین مسلم انتہا پسند فوجیوں کو فوج سے نکالا گیا تھا۔ڈیر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق رواں برس فروری کے وسط میں جرمن پارلیمان کی داخلہ معاملات سے متعلق کمیٹی کے ایک بند کمرہ اجلاس میں ’ایم اے ڈی‘ کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے میں صرف وہ تعداد سامنے لائی گئی تھی جن اہلکاروں کی ’واضح طور پر دائیں بازو کے شدت پسند‘ کے طور پر شناخت ہوئی تھی۔فوج میں نگرانی کے اس خفیہ ادارے کے ایک رْکن نے جرمن میگزین ڈیئر اشپیگل کو بتایا کہ سامنے لائے گئے اعداد و شمار جرمن مسلح افواج سے نکالے گئے اہلکاروں کی اصل تعداد سے کہیں کم تھے۔ اس رکن کے مطابق ایسے اہلکاروں کو بھی فوج سے نکالا گیا جن پر دائیں بازو کے شدت پسند ہونے کا شبہ تھا۔’ایم اے ڈی‘ کا کہنا ہے کہ اس وقت جرمن فوج میں دائیں بازو کے مشتبہ شدت پسندوں کے قریب 450 کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ایم اے ڈی کے ایک اہلکار کے مطابق سال 2013ء سے اب تک ہر سال قریب 10 مزید اہلکاروں کے بارے میں اعلیٰ حکام کو خبردار کیا گیا جو ’مشتبہ طور پر شدت پسندانہ رویہ‘ رکھتے تھے۔ڈیئر اشپیگل کے مطابق ’ایم اے ڈی‘ کا کہنا ہے کہ اس وقت جرمن فوج میں دائیں بازو کے مشتبہ شدت پسندوں کے قریب 450 کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان میں سے 64 اہلکار مشتبہ طور پر ’آئیڈنٹیٹیریئن موومنٹ‘ جبکہ دیگر 64 اہلکار ممکنہ طور پر ’رائش بْرگر‘ نامی دائیں بازو کے شدت پسند گروپوں کے رْکن ہیں۔رائش بْرگر تحریک خاص طور پر جرمن حکومت کے علاوہ جرمن قوانین کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی۔