قرآن سرچشمۂ ہدایت

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 07-March-2019

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ … ترتیب: عبدالعزیز

(نومبر 1969ء کو ’سیارہ‘ ڈائجسٹ کے ’’قرآن نمبر ‘‘ کی تعارفی تقریب میں مولانا مودودیؒ کا خطاباس وقت پوری دنیا میں نوعِ انسانی کے پاس قرآن مجید کے سوااور کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خالص کلام ہر آمیزش سے پاک بالکل اپنی صحیح صورت میں موجود ہو۔ ایسی ہدایت کہ جس کے متعلق پورے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، سوائے قرآن مجید کے دنیا کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ اس طرح ایک لحاظ سے دیکھئے تو مسلمان دنیا کی وہ خوش قسمت ترین قوم ہیں کہ جس کے پاس یہ کتاب موجود ہے اور دوسرے لحاظ سے دیکھئے تو یہ دنیا کی وہ بدترین قوم ہے کہ جس کے پاس یہ کتاب موجود ہے لیکن وہ اس سے منہ موڑ کر ادھر ادھر دوڑتی پھر رہی ہے۔ قرآن حجّت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’القراٰن حجۃ لک او علیک‘ ’’قرآن یا تمہارے حق میں حجت ہے یا تمہارے خلاف ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایک چھوٹے سے فقرے میں بے نظیر بات ارشاد فرمائی ہے۔ اگر ایک آدمی قرآن مجید کی پیروی کرے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ یہ بات پیش کرسکتا ہے کہ میں نے آپ ہی کے کلام کے مطابق عمل کیا ہے۔ یہ سب سے بڑی حجت اس کے حق میں ہوسکتی ہے اور اس کی بنا پر اس کی بخشش کا ہونا یقینی ہوسکتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی پیروی کی، لیکن اگر کسی کے پاس کتاب الٰہی موجود ہو اور اس کے بعد وہ اس سے منہ موڑے اور اس کے خلاف عمل کرے تو کتابِ الٰہی اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔ دنیا کا کوئی دوسرا شخص تو یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ آپ کا کلام ہم تک نہیں پہنچا تھا لیکن ہم مسلمان تو یہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم تو دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے اور انھوں نے ہی یہ کتاب ہم تک پہنچائی۔ اس لئے ہمارے سامنے کوئی راہ فرار نہیں رہتی، نہ کوئی حجت رہ جاتی ہے۔ اگر ہم اس کے خلاف عمل کریں تو ہمارے اوپر مقدمہ ثابت ہوجاتا ہے۔ ہم خدا کے سامنے اس بات کی کوئی جواب دہی نہیں کرسکتے کہ ہم قرآن سے منہ موڑ کر کسی کی لال کتاب اور کسی کی کالی کتاب کی طرف کیوں دوڑتے پھرتے تھے۔ سرچشمۂ ہدایت قرآن مجید اور اسوۂ حسنہ کے سوا کوئی نہیں: حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ توریت کا ایک نسخہ لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ پڑھتے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک غصے سے سرخ ہوتا چلا گیا۔ ایک صحابیؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے سے کتنا سرخ ہورہا ہے اور تم پڑھے چلے جارہے ہو۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر رک گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج اگر موسیٰؑ بھی ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کیلئے کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔ موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے نبی تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد اور قرآن مجید کے آجانے کے بعد کوئی دوسرا سرچشمۂ ہدایت نہیں رہا جس کی طرف انسان رجوع کرسکے۔ ہدایت اگر موجود ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک اور اللہ تعالیٰ کی اس کتاب پاک میں ہے، اس کے باہر کسی جگہ کوئی ہدایت موجود نہیں ہے۔ جس طرف بھی کوئی جائے گا بجز گم راہی اور ضلالت کے کچھ نہیں پائے گا۔ قرآن کا نظام عدل، عدلِ اجتماعی سے پہلے عدلِ انفرادی: یہ کتاب جس مقصد کیلئے آئی ہے اس کو مختصر الفاظ میں قرآن مجید ہی میں بیان کر دیا گیا ہے کہ لیقوم الناس بالقسط ’’عدل کا قیام اس کتاب کا مقصد ہے‘‘۔ مگر لوگ اس زمانے میں غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عدل محض عدلِ اجتماعی کا نام ہے۔ حالانکہ عدل اجتماعی سے پہلے عدلِ انفرادی ضروری ہے۔ اگر ایک آدمی کی ذات میں عدل موجود نہیں ہے،اس کے اپنے اندر عدل موجود نہیں ہے تو باہر وہ دنیا میں کیسے عدل قائم کرسکتا ہے۔ ایک آدمی کے اخلاق میں عدل ہونا چاہئے۔ اس کے افکار، اس کی عادات و خصائل، اس کی خواہشات اور اس کے نظریات میں عدل ہونا چاہئے۔ اس کے بعد کہیں جاکر وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ باہر عدل قائم کرے۔ اگر اس کے بغیر ایک آدمی یہ دعویٰ کرے کہ میں عدل اجتماعی قائم کرنے جارہا ہوں تو وہ سرے سے عدل کے معنی و مفہوم ہی سے ناواقف ہے۔ وہ اس بات کو جانتا ہی نہیں کہ عدل پہلے اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرنا پہلی چیز ہے۔ اگر آدمی اپنی ذات میں عدل پیدا نہیں کرتا، اپنے اخلاق و خصائل اور افکار و نظریات میں عدل پیدا نہیں کرتا تو ظاہر ہے کہ باہر جو کچھ وہ کرے گا اس میں افراط و تفریط کا شکار ہوگا یا افراط کرے گا یا تفریط۔ یہ کتاب انسان کو پہلے اس کی اپنی ذات میں عدل کرنا سکھاتی ہے۔ سب سے اولین انصاف جو اس کو کرنا ہے وہ اپنے اور اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اگر ایک آدمی اپنے خدا ہی سے بغاوت کر رہا ہے تو اس کے بعد عدل کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ جس خدا نے اس کو پیدا کیا، جو خدا اس کو رزق دیتا ہے ، جس کے پیدا کرنے سے وہ پیدا ہوااور جس کے زندہ رکھنے سے وہ زندہ ہے، اگر وہ اس کی اطاعت نہیں کر رہا ہے، اسی سے منہ موڑ رہا ہے تو وہ ایک ایسی بے انصافی کر رہا ہے جس سے بڑی کوئی بے انصافی دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اپنے خالق و پروردگار کی اطاعت ہی نہیں کرتے تو دنیا میں آپ کہاں انصاف قائم کریں گے۔ اولین ظلم کا ارتکاب تو خدا کے سامنے خود مختار بن کر آپ کرچکے۔ عدل کے اولین تقاضے کو پورا کرنے کے بعد ضروری ہے کہ انسان ان سے عدل کرے جو اس کے قریب ترین ہیں۔ اگر ایک آدمی اپنی اولاد سے عدل نہیں کرتا، اپنے والدین اور اپنے بھائی بہنوں سے عدل نہیں کرتا، ایک شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے عدل نہیں کرتی تو وہ باہر کی دنیا میں کہاں عدل قائم کریں گے۔ خدا کے ساتھ انصاف کرنے کے بعد اپنے قریب ترین اعزہ اور رشتہ داروں کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔ یہ ہے وہ ترتیب جس کے مطابق قرآن مجید آدمی کو سب سے پہلے عدل کی جڑ سکھاتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ عدل کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ کتاب آگے چل کر بتاتی ہے کہ آدمی معاشرے میں کس طرح عدل قائم کرسکتا ہے۔ آپ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں، جس قوم اور جس ملک میں بستے ہیں، جس دنیا میں رہتے ہیں اور جس نوع انسانی کے آپ فرد ہیں اس کے اندر عدل قائم کرنے کے جو اصول قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں اور جتنے وسیع پیمانے پر زندگی کے ہر پہلو کو لیکر عدل کے طریقے سکھائے گئے ہیں اس وقت دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں عدل کا اتنا جامع تصور دیا گیا ہو۔ عدلِ اجتماعی ظلم کی تعلیم دینے والوں کے ذریعے قائم نہیں ہوسکتا: آج جن لوگوں کا نام دنیا کے رہنماؤں کی حیثیت سے لیا جارہا ہے ذرا ان کی کتابیں اٹھاکر آپ پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ خود اور ان کی تعلیمات افراط و تفریط کا مجموعہ ہیں۔ ان کے اندر اعتدال سرے سے موجود نہیں ہے۔ ان کے ہاں آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا میں لڑائی ہو، کشمکش ہو اور نزاع ہو۔ وہ موافقت پیدا کرنے کی بہ جائے منازعت (باہمی نزاع) پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے لوگ اور ان کی کتابوں سے اگر انسان ہدایت لینے کیلئے دوڑتا ہے اور اس کے بعد کہتا ہے کہ وہ دنیا میں عدلِ اجتماعی قائم کرنے چلا ہے تو بالکل غلط کہتا ہے۔ وہ اپنے نفس کو بھی دھوکا دے رہا ہے۔ عدلِ اجتماعی اگر قائم ہوسکتا ہے تو صرف قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق ہوسکتا ہے، جس میں زندگی کے ہر پہلو کو لے کر اس کے بارے میں ترمیم و تنسیخ اور ناقابل تغیر اصول رکھ دیئے گئے ہیں اور انسان کیلئے یہ اصول اس نے رکھے ہیں جو انسان کا خالق ہے۔ آپ ان اصولوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عدل کرنے کی اس کے سوا اور کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کے دو دور اور قرآن مجید: مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی کمزوری صحت کی وجہ سے اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے تقریر نہیں کرسکتا۔ میں مختصر طور پر صرف اتنا بیان کروں گا کہ ہم جب دنیا میں اٹھے تو اسی کتاب کو لے کر اٹھے تھے۔ ہم نے اس کی پیروی کی تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے مقابلے میں نہ ٹھہر سکی۔ تمام دنیا کے مورخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا عظیم الشان انقلاب، جیسا کہ اس کتاب کی بہ دولت رونما ہوا تھا، کبھی انسانی تاریخ میں نہیں ہوا۔ ایک ایسی پسماندہ قوم کو جو روم اور ایران اور مصر کے مقابلے میں اپنی کوئی ہستی نہ رکھتی تھی، اس کی کوئی طاقت نہ تھی، وہ ایک صحرا نشین قوم تھی، جس کے پاس کوئی ذرائع اور وسائل موجود نہیں تھے وہ اس کتاب کو لے کر اٹھی اور ایک صدی کے اندر اندر سندھ سے لے کر اندلس اور مراکش تک پھیل گئی۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں اور بڑی بڑی فوجیں اس کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکیں۔ قوموں کی قومیں نہ صرف اس کی مطیع فرمان ہوگئیں بلکہ اس کے رنگ میں رنگ گئیں۔ ان کی زبان، ان کی تہذیب، ان کے خیالات، ان کی عادات اور ان کے اطوار بدل گئے۔ پھر یہ کوئی استعماری طاقت (Colonial Power) نہیں تھی۔ استعماری طاقتیں دنیا کی دوسری قوموں پر قبضہ کرتی ہیںتو ان قوموں میں ان کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن مسلمان قرآن لے کر اٹھے تھے اس لئے جہاں بھی وہ گئے انھوں نے دل جیت لئے۔ مختلف قوموں نے ان کا عدل دیکھا، ان کے اخلاق دیکھے، ان کی پاکیزہ صفات دیکھیں تو تسلیم کرلیا کہ جو چیز یہ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے۔ لیکن جس وقت ہم نے اس کتاب سے منہ موڑا تو اس کا نتیجہ ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ آج اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا میں 75 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ تیس بتیس کے قریب ان کی حکومتیں موجود ہیں لیکن جس کا جی چاہتا ہے ان کے سینے پر مونگ دلنے لگتا ہے اور وہ بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ جس کو اپنا قبلہ اول اور ثالث الحرمین کہتے ہیں اسی میں آگ لگا دی جاتی ہے۔ دنیا کے مسلمان اس پر تڑپ اٹھتے ہیں مگر کچھ نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے؟ صرف یہ کہ قرآن مجید سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے منہ موڑ کر انھوں نے دنیا کے ہر نام نہاد ’’منبع ہدایت‘‘ کی طرف رجوع کیا۔ ہر اس سرچشمے کی طرف دوڑے، جس کے متعلق انھوں نے یہ گمان کیا کہ یہاں سے ہمیں ہدایت ملے گی؛ چنانچہ اس کا جو بدترین نتیجہ ہوسکتا ہے وہ ہورہا ہے۔(ماخوذ از: تفہیمات، حصہ چہارم) E-mail:azizabdul03@gmail.com