Taasir Urdu News Network | Uploaded on 16-March-2019
اسلام آباد ( آئی این ایس انڈیا ) زیادہ پرانی بات نہیں۔ بلوچوں نے اپنے لاپتا بیٹوں، بھائیوں، باپ اور شوہروں کی بازیابی کے لئے ملک بھر میں پیدل مارچ کیا۔ مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب اس مارچ میں شامل تھے، جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا۔ مہینوں تک در بدر رہے۔ لیکن مجال ہے کہ میڈیا نے کوئی چرچا کیا ہو، سرخیاں لگائی ہوں۔آئے دن، مختلف شہروں میں، کبھی پریس کلب کے سامنے، سڑک پر، سرکاری دفاتر کے باہر، تھکے ہارے، دھول میں اٹے، ہاتھوں میں احتجاجی پوسٹر اٹھائے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی کوئی چھوٹی سی تصویر خالی جگہ پْر کرنے کے لئے لگا دی جاتی تھی مگر پھر وہی سناٹا۔تو آخر آٹھ مارچ کو عورت مارچ میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے کہ سوشل میڈیا تھکتا ہی نہیں اس کی بات کرتے۔ اور بات بھی نہ تو عورتوں کے حقوق کی، نہ ان کے عالمی دن کی، نہ ان کی صدیوں کی جدوجہد کی۔ بلکہ ان چنیدہ پوسٹرز کی جو اس مارچ میں سامنے آئے۔ان پر قدامت پسند حلقوں اور بیشتر مرد حضرات کا اعتراض تو تھا ہی، پھر جواب در جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن جب کشور ناہید جیسی معتبر شاعر اور عشروں سے عورتوں کے حقوق کی ایکٹیوسٹ نے کچھ پوسٹرز کی زبان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’اپنی تہذیب، روایات اور شعور کو مد نظر رکھیں‘‘۔ تو لگتا یوں ہے کہ مارچ کے حامی حلقے کشور ناہید کے رد عمل پر سچ مچ شاک میں ہیں۔ مگر مثبت بات یہ ہے کہ انتہائی احترام کے ساتھ، آخر آج کے بہت سے’اینگری ینگ مین‘ انہیں کشور آپا جو کہتے ہیں۔ بہرحال نقادوں کو بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عشروں پہلے سیعورتوں کے ایک غیر روایتی تصور کے لئے آواز اٹھانے والی خواتین میں ایک بہت جاندار آواز کشور ناہید کی ہے۔ بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں اور محلوں سے آنے والی اور اسی طرح انگریزی اسکولوں میں پڑھنے والی یہ عورتیں، یہ لڑکیاں، یہ بچیاں، ادبی زبان لکھنے کی اہل نہیں ہیں۔ ان ’احتجاجیوں‘ کو اپنے غصے کے اظہار کے لئے جو بھی لفظ سمجھ میں آئے وہ انہوں نے اپنے پرچم پر لکھ دئے۔ جیسا کہ مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کی مارچ تو تھی نہیں کہ پوسٹر بنوا کر تقسیم کئے جاتے۔