Taasir Urdu News Network | Uploaded on 07-March-2019
بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور بھلے کام کرنے والے مومنین کو بڑے اجر کی بشارت دیتا ہے۔ سوراہ بنی اسرائیل ؑآیت نمبر ۔۹ یوں تو سارے دن مہینے اور سال اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے سب یکساں لائق احترام ہیں۔ اس کے باوجود کچھ اہم واقعہ کے باعث دنوں، مہینوں اور سال کی بھی خصوصی پہچان بنتی ہے۔ اور واقعہ کی اہمیت کے تناظر میں واقعہ سے متعلق دن۔ مہینے اور سال بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
رجب المرجب: مذکورہ معروضات کی ورشنی میں رجب المرجب بھی ایک عظیم واقعہ کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل مہینہ ہے وہ عظیم واقعہ سفر معراج ہے۔ یہ اپنے آپ میں انوکھا اور حیرت انگیز واقعہ ہے۔ مختصراًس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک رات جبرئیل ؑ اللہ کے حکم سے پیارے نبیؐ کو مکہ معظمہ سے بیت المقدس لے گئے۔ وہاں پیارے نبیؐ نے انبیا ء کرام کے ساتھ نماز ادا کیا۔ پھر یہاں سے جبرئیل ؑ آپ کو عالم بالا کی طرف لے گئے۔ مختلف آسمانوں پر مختلف جلیل ا لقدر انبیاء کرام سے آپؐ کی ملا قات ہوتی ہے۔ اور اللہ رب العزت سے ہمکلامی ہوتی ہے۔اہمیت: دراصل انبیاء ؑکرام میں سے ہر ایک کو اللہ نے ان کی منصب کی مناسبت سے بیچ کے تمام حجابات ہٹا کر آنکھوں سے وحقیقتین دکھادی ہے جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کئے گئے تھے۔ تاکہ ان کی دعوت محض فلسفہ یا فلسفی کا دعو یٰ بن کہ نہ رہ جائے کیوںنکہ فلسفی جو کچھ کہتا ہے وہ قیاس و گمان سے کہتا ہے۔ جبکہ اننیاء ؑ کرام نے جو پیغام انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ براہ راست مشاھدہ کی بنیاد پر پیش کیاہے۔ اسی غرض سے اللہ تعا لیٰ نے پیارے نبیؐ کو معراج کا سفر کرایا تا کہ آپ بھی براہ راست مشاہدہ کی بنیاد پر لوگوں کو ایمان با لغیب کی دعوت دیں۔اس کے لئے اللہ نے آپ کو آسمانی دنیا کا سیر کرایا اورجنت و دوزخ کا مشاھدہ کرایا ۔ ساتھ ہی آپؐ کو سورہ بنی اسرائیل کی شکل میں اسلامی منشورعطا کیا، نیزا س عظیم منشور پر عمل آوری اور مستقل اصلاح و تز کیہ کا عمل قائم رکھنے کے لئے نماز کی شکل میں قیمتی تحفہ عنایت کیا۔پس منظر: سفر معراج سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ کو مشاہدہ بالغیب کرانے اور دنیا کا نظام جس منشور کے مطابق چلنا تھا وہ ودیعت کرنے کے لئے اللہ نے یہ انوکھا سفر کرایا۔ دراصل اس وقت اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پیارے نبیؐ کو صرف ایک سال بعد مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ منتقل ہونا تھا۔اورمختلف مقا مات پر پھیلے مسلمانوں کو ایک جگہ سمیٹ کر اسلام کے اصول پر ایک ریاست قائم کرنا تھا۔ اس کے لئے جن بنیادی تعلیمات اور اصول کی ضرورت تھی وہ ایک سال قبل ہی اللہ نے آپ کو عناعت کر دیا تا کہ لوگوں کو اس سے واقف کرا دیا جائے چنانچہ معراج سے واپسی پر آپ نے لوگوں کو یہ پیغام سنایا۔پیغام: سفر معراج میں پیارے نبیؐ کو اللہ نے دنیا والوں کے لئے سورہ بنی اسرائیل کی شکل میںیہ پیغام دیا کہ انسانی سعادت وشقاوت اور فلاح و خسران کا مدار کن باتوں پر ہے۔ ساتھ ہی توحید، رسالت، آخرت اور قرآن کے برحق ہونے کی دلیل دی گئی ۔نیز اخلاق و تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کئے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدیؐ کے پیش نظر تھا۔خصو صاً آیت نمبر۲۳ سے ۳۷ تک وہ چودہ نکاتی اصو ل دئے گئے ہیں جن میں انسانیت اور ریاست کی کامیابی کیضمانت ہے۔ تقاضہ: ماہ رجب میں نازل شدہ پیغام کے تقاضہ پر غور کرنے سے پہلے مناسب یہ ہو گا کہ رجب المرجب ، شعبان المعظم اور رمضان ا لمبارک کے باہمی ربط پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ اس سے تقاضائے ماہ رجب کو سمجھنا زیادہ مفید مقصد ہوگا۔ دراصل مذکورہ تینوں مہینے متعین مقصد کے تحت باہم مر بوط ہیں وہ متعین مقصد یہ ہے کہ مسلمان کتاب ہدایت (قرآن مجید) کو مقصد کے تئیں روزمرہ کی زندگی میں اپنا معمول بنائیں تینوں مہینو ںکا باہمی ربط اس طرح ہے کہ رجب المرجب نزول منشور اسلامی کامہینہ ہے، شعبان ان اصولوں کے تحت اپنے آپ کو تیار کرنے کے لئے ماحول سازی، فصابندی اور موڈ بنانے کا مہینہ ہے اور رمضان المبارک رجب میں نازل شدہ اصولوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور اس کا آئینہ دار بننے کا مہینہ ہے۔تینوں مہینوں کے باہمی منطقی ربط کی روشنی میں مسلمانوں کے لئے رجب میں کرنے کا ترجیحی کام یہ ہے کہ اپنا تعلق قرآن سے نسبتاً زیادہ مضبوط کریں۔ یوں تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنا زندوں کی طرح زندہ رھنے کے لئے ہر روز ضروری ہے لیکن رجب میں حضورؐ کا حیرت انگیز سفر کرانا اور قرآن کے دیگر اجزا، کے مقابلے سورہ بنی اسرائیل کا ڈائریکٹ حوالے کرنا بہر حال شعور و فکر کے بہت سے دریچے کھولتا ہے۔ اس سورہ میں جہاں اس سر چشمہ ہدایت کی حقیقت وضرورت اور انفرادی واجتماعی زندگی میں خدائے واحد کی حاکمیت پر ایمان مستحکم پر متوجہ کیا گیا ہے۔ وہیں چودہ نکاتی پر وگرام کے تحت خاندانی، معاشرتی، معاشی اور تمدنی زندگی میں کامیابی کی وہ شاہ کلید پیش کی گئی جو دنیائے انساینت کو عزت و وقار اور غلبہ و اقتدارسے ہمکنار کرتی ہے مزید اس میں ایسے زریںاصول دئے گئے ہیں جو عدل و انصاف پرمبنی ہیں ۔ جس میں امن و شانتی، الفت و محبت کی تعلیمات اور باہمی یقین و اعتمادکی روح سرایت ہے۔ جہاں ما یوسی، محرومی، بے یقینی، بے اعتا دی اور ظلم و زیادتی سے حفاظت کی مکمل ضمانت ہے ۔ اس طرح سورہ بنی اسرائیل کی عظیم الشان تعلیمات اس بات کی متقاضی ہیں کہ مسلمان انتہائی بیدارمغزی کے ساتھ رجب کی ابتدا ہی سے اس کو سمجھنے میں اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرے اور اسی رہنمائی میں سماج کی اصلاح میں جٹ جائے تا کہ رمضان آتے آتے ایک پاکیزہ معا شرہ کی تعمیر میں کامیابی ممکن ہو جائے۔ آج کے گونا گوں اور پیچ در پیچ مسائل میں امت مسلمہ کے عزت و وقار اور عالم انسانیت کے امن و سکون کا دارومدار بہر حال قرآنی تعلیمات ہی پر ہے ۔اس بات کو خود قرآن نے موثر انداز سے سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۹ میںاس طرح بیان کیا ہے ترجمہ۔ــــ’’بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے‘‘ ساتھ ہی قرآن کے متعلق یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جہاں قرآن سے مطلوبہ تعلق انسانیت کے لئے غلبہ و سربلندی کا ذریعہ ہے وہیں قرآن سے عدم دلچسپی و دوری اور قرآن کو نہ پڑھنے اور نہ سمجھنے کا انجام ہزیمت و پسپائی، ذلت و رسوائی اور ہلاکت و تباہی ہے چنانچہ متفق علیہ حدیت ہے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا ترجمہـ’’ بیشک اللہ اس قرآن کے ذریعہ قوموں کوبلندی عطا کرتا ہے اور قرآن سے متعلق غفلت برتنے والی قوموں کوپھینک دیتا ہے‘‘ اللہ سے دعاء ہے کہ سارے مسلمانوں کو رجب المرجب کی ابتداء ہی سے متعین مقصد کے سات رمضان المبارک تک قرآن سے شعوری تعلق پیدا کرنے ، اس کی ہدایت کا آئینہ دار بننے اور اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی توفیق جزیل عطا کرنے۔آمین9955787848محمد فاروق ندوی، بھاگلپور