تمام افغان مل بیٹھیں تو امن ممکن ہے، کرزئی

Taasir Urdu News Network | Uplo0aded on 22-April-2019

کابل، سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ اگر تمام افغان مل بیٹھیں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بہ شمول طالبان، مذاکرات میں شامل ہوں، تو افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔جمعے کے روز اپنے بیان میں حامد کرزئی نے کہا کہ قطر میں مختلف افغان دھڑوں کے درمیان ملاقات غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ قطری دارالحکومت دوحہ میں اس اختتامِ ہفتہ پر امن مذاکرات کا انعقاد کیا جانا تھا، تاہم اس میں شرکاء کے حوالے سے پائے جانے والے عدم اتفاق کی بنا پر اسے ملتوی کر دیا گیا۔ ان مذاکرات میں طالبان نے پہلی مرتبہ یہ کہہ کر حکومتی وفد سے بھی بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ انہیں عام افغان شہری سمجھا جائے گا۔ اگر ان مذاکرات کا انعقاد ہو جاتا، تو یہ 17 برس میں پہلا موقع ہوتا، جب طالبان اور کابل حکومت کے وفود کی براہ راست ملاقات ہوئی۔طالبان اس سے قبل کابل حکومت کو ’امریکی کی کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت سے انکار کرتے آئے ہیں، تاہم امریکی دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے بالآخر ان کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔جمعرات کے روز تاہم قطری مرکز برائے تنازعات اور ہیومینیٹیرین اسٹیڈیز، جس کے زیرانتظام یہ مذاکرات ہونے تھے، نے اعلان کیا گیا تھا کہ اس کانفرنس میں شرکاء کے ناموں کے حوالے سے عدم اتفاق پر یہ مذاکرات ملتوی کیے جا رہے ہیں۔خبر وں کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ان مذاکرات کی منسوخی کا الزام کسی ایک فریق پر عائد کرنے کی بجائے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے اپنی طاقت استعمال کرے۔انہوں نے امریکی امن مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی بھی تعریف کی اور کہا کہ افغان تنازعے کے حل کے لیے وہ موزوں ترین شخصیت ہیں۔حامد کرزئی کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ امریکا افغانستان میں کسی طرح کا سمجھوتا چاہتا ہے۔ مگر میرے نزدیک امریکا کو اس معاملے میں مزید واضح روڈمیپ بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ عمل آگے بڑھ سکے۔خبروں کے مطابق ایک افغان حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان حکومت کی جانب سے 243 افراد کے نام پیش کیے گئے، تاہم یہ نام افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے دی گئی 250 افراد کی فہرست سے مختلف تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کی فہرست میں زیادہ خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔جمعے کے روز ان مذاکرات کی منسوخی پر طالبان نے کہا تھا کہ اشرف غنی نے ان مذاکرات کو سبوتاڑ کیا۔ دوسری جانب اشرف غنی نے یہ الزام طالبان پر عائد کیا تھا کہ انہوں نے قطر کو ایک مختلف فہرست قبول کرنے کا کہا اور وہ فہرست قبول نہ کی گئی، جس میں حکومتی وزراء اور 44 خواتین شامل تھیں۔