میں ہمیشہ اپنی زندگی کسی مقصد کے لئے جینا چاہتی تھی:تنوجاراشد

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 15-May-2019

کٹیہار،(عاشق رحمانی)، تیرے ماتھے پر یہ آنچل تو بہت خوب ہے لیکن ، تو اس آنچل سے ایک پرچم بنالیتی تو اچھاتھا۔ اردو کے مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی لکھے اس شعر میں عورتوں کو خود کی بہتری کے لئے جدوجہد کرنے اور نئی شروعات کرنے اورغیر براری کو مٹانے کی کوشش ایک ساتھ موجود ہے دراصل شاعر نے آنچل کو پرچم بنالینے کی جو بات کہا ہے اسے ایک ہدف کے طورپر خواتین تحریک کے پروگرام میںبہت ہی زور وشور سے اٹھایاجاتاہے حقیقت میں ایسی کئی مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ عورتوں نے اپنے آنچل کو نہ صرف آنچل کی طرح بلکہ اسے اپنے نئے سویرے کے آغاز کے لئے ایک پرچم کی طرح بھی استعمال کیا۔ انہیں بہادر عورتوں میں ایک مثال تنوجارشید کا ہے۔ خاص طورسے کٹیہار ضلع کے براری واقع بلاک واقع سکٹ گاؤں کی رہنے والی تنوجا کی کہانی بھی اسی طرح ملتی جلتی رہتی ہے۔ تنوجا کا کہناہے کہ میں ہمیشہ سے اپنی زندگی کسی مقصد سے جینا چاہتی تھی سماج کی بہتری میں تعاون کرنا چاہتی تھی لیکن وقت کے اس موڑ پر میں بے سہارا ہورہی تھی ، لیکن میرا جذبہ ابھی زندہ تھا اور اسی کے بدولت میں نے اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا۔ میں نے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کردیا۔ کسی سے زبردستی کوئی پیسہ نہیں مانگتی۔ جوملا رکھ لیا پھر کچھ دنوں بعد ایک اسکول میں پڑھانا شروع کردیا اور ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی شروع کردی۔ ان تکلیف دہ دنوں میں انہوں نے سسرال میں رہ کر ان لوگوں کی فرمابرداری بھی کی۔ اردو ٹیچر کا امتحان توپاس کر لی ۔ لیکن سسرال والوں کی ناپسندی کی وجہ سے ملی ہوئی سرکاری نوکری چھوڑنے کو مجبور ہوئی۔ یہاں سے ان کی زندگی میں اصل بدلاؤ آنا شروع ہوگیا۔ وہ میکے چلی آئی اور لڑکیوں کو بے داغ مالی طور پر خود کفیل بنانے کے لئے اپنے مشن کو اپنی زندگی کا ٹارگیٹ بنالیا۔ ٹیوشن اور اسکول کی کمائی سے کچھ پیسے بچاکر انہوں نے ایک سلائی مشین خریدا اور آس پاس کی بچیوں کو مفت سلا ئی کی ٹریننگ دینی شروع کردی۔ چند مہینے میں ان کے پاس درجنوں لڑکیاں آنے لگی تو اب مشین کی کمی ان کے آڑے آگئی۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے سماج کے لوگوں سے چندہ مانگ کر مشین خریدی، جس گاؤں سے لڑکیوں کے والدین دوڑ کے گاؤں میں نہیں جانے دیتے تھےان گاؤں میں تنوجا خود پہنچ کر انہیں کٹائی سلائی کی ٹریننگ دیتی تھی۔ اسی درمیان تنوجا نے خود بیوٹیشین کا تجربہ لیا اور اب لڑکیوں کو مہندی ، دولہن کا میک اپ وغیرہ کاموں میں بھی ٹریننگ دے کر انہیں خود کفیل بنایا۔ اپنے سماجی کام کے لئے تنوجا کو کئی دفعہ اعزاز سے نوازا گیاہے۔ بہار کےپسماندہ علاقےمیں جہاں لڑکیوں کو انہوں نے خود کفیل بنایاواقعی وہ قابل تعریف ہے۔ اور اس بہادر خاتون کو آج بھی سماج اچھی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔