شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی میں تعزیتی نشست برائے سید فیروز اشرف

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 26-June-2019

ممبئی(پریس ریلیز)معروف صحافی اور سماجی کارکن سید فیروز اشرف کی ناگہانی موت پر اظہار افسوس کے لیے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ ٔ اردو کی جانب سے ہوا۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت پروفیسر صاحب علی نے کی اور پروفیسر سید اقبال ،شعبہ ٔ ہندی کے پروفیسر ہوب ناتھ پانڈے ،ممبئی نیوز یو ٹیوب چینل کے ماجد صدیقی ،ٹا ئمس آف انڈیا سے وابستہ سینئر صحافی جیوتی پنوانی اورمعروف صحافی وجیہ الدین،اردو کے فکشن نگار ڈاکٹر سلیم خان ،شعبۂ اردو کے ڈاکٹر جمال رضوی اور ڈاکٹر قمر صدیقی کے علاوہ ماس میڈیا اور اردو جرنلزم کے طلبا محمد پٹیل، قریشی سمیہ، راضیہ بانو اور لئیقہ بانو نے مرحوم سیدفیروز اشرف کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ان مقررین نے مرحوم کی صحافتی اور سماجی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں انسانیت کی خدمت کی جو بہترین مثالیں پیش کیں اس کے سبب وہ آج ہمار ے درمیان نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ انھوں نے ایک صحافی کے طور پر شہرت حاصل کی لیکن ان کی شناخت کو معتبر بنانے میں ان کی شخصیت کا وہ روپ بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی درد مندی اور ایثار کے عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔ سید فیروز اشرف نے ہندی صحافت کے ذریعہ سماج کے پسماندہ طبقات کے مسائل کو منظر عام پر لانے میں اہم رول ادا کیا اور اس ضمن میں انھوں نے خصوصی طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی، تہذیبی اور تعلیمی مسائل کا جائزہ عصری حالات کے تناظر میں قدرے معروضی انداز میں پیش کیا۔ان کا یہ طرز صحافت اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل رہا کہ انھوںنے ہندی کے قارئین کو مسلم سماج کے مسائل اور حالات کے جاننے کا موقع فراہم کیا اور اس طرح ہندوستانی سماج میں نمایاں حیثیت رکھنے والی ان دو قوموں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میںمعاونت کی جن کے بغیر اس ملک میں قومی اتحادویکجہتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس نشست کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صاحب علی نے کہا کہ انھوں نے جہاں اپنے قلم کے ذریعہ سماج میں امن و محبت کے پیغام کو عام کیا وہیں عملی طور پران غریب و نادار لوگوں کی زندگی میں امید کی روشنی پیدا کی جو زندگی کی محرومیوں کے سبب اپنی آرزووں اور خواہشوں کو پورا کرنے کے اسباب جٹا پانے میں اکثر ناکام رہتے تھے۔سید فیروز اشرف نے اس صورتحال کو بدلنے کے لیے حصول تعلیم پر خصوصی زور دیا۔انھوں نے کہا کہ مرحوم سید فیروز اشرف نے مالی اعتبار سے کمزور طلبا کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے میں تن، من ،دھن ہر طرح سے اپنی خدمات پیش کیں جس کا نتیجہ یہ رہا کہ نہ صرف وسائل سے محروم طلبا کے اندر حصول تعلیم کا جذبہ محکم ہوا بلکہ ان کی اس کوشش کے سبب کئی ایسے لوگوں کو معیاری ملازمتیں حاصل ہوئیں جن کے گھروں میں تعلیم کی روشنی اور معیاری ملازمت کی برکت اس سے پہلے نہیں پہنچی تھی۔ پروفیسر صاحب علی نے کہا کہ سیدفیروز اشرف نے خدمت خلق کو اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا اور اس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے عملی سطح پر جس اخلاص و دیانت داری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال کم دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ ایک فرض شناس صحافی ہونے کے ساتھ ہی ایک فعال سماجی کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے ۔انھوں نے کہا کہ ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے ان کا رابطہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے وہ یہاں جرنلزم کے طلبا کو پڑھاتے تھے اور نصابی معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ہی اپنی صحافتی زندگی کے تجربات سے طلبا کی شخصیت سازی کرتے تھے۔ ان کا انتقال تعلیم و صحافت کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے اور ساتھ ہی سماجی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ان کی موت انتہائی افسوس کا باعث ہے۔ اس تعزیتی نشست میں شہر کی ممتاز شخصیات اور مرحوم فیروز اشرف کے دوست و احباب کے علاوہ شعبہ ٔ اردو کے طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔