مصر ایغور مسلمانوں کی گرفتاریوں میں کیوں مدد کر رہا ہے؟

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 19-August-2019

بیجنگ/قاہرہ،ایغور طالب علم عبدالمالک عبدالعزیز کو مصری پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے اسے ہتھکڑیاں لگا دیں۔ جب اس کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائی گئیں تو وہ چینی حکام کی تحویل میں تھا اور چینی حکام ہی اس سے تفتیش کر رہے تھے۔عبدالمالک عبدالعزیز کو دن کی روشنی میں اس کے دوستوں کے ساتھ اٹھایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے قاہرہ کے ایک پولیس اسٹیشن پر لایا گیا، جہاں چینی حکام موجود تھے اور انہوں نے اس سے تفتیش شروع کر دی۔ تینوں حکام نے اس سے چینی زبان میں بات کی اور اسے اس کے اس ایغور نام کی بجائے چینی زبان کے نام سے مخاطب کیا۔ عبدالعزیز کو یہ بھی نہیں معلوم کو وہ تینوں چینی اہلکار کون تھے۔سن دو ہزار سترہ میں اس طرح مصر میں 90 سے زائد ایغور مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔ خبروں کے مطابق عبدالعزیز سے رابطہ کر کے ان کی گرفتاری سے متعلق تفصیلات پوچھیں۔ عبدالعزیز مصر کے مشہور ادارے الازہر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور انہیں اس تین روزہ کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا تھا، جو مصر میں جولائی دو ہزار سترہ کے پہلے ہفتے ایغور مسلمانوں کے خلاف ہوا تھا۔خبروں کے مطابق عبدالعزیز کا کہنا تھا، ”مجھے مصری حکام نے بتایا کہ چینی حکام نے کہا ہے کہ تم ایک دہشت گرد ہو لیکن میں نے جواب دیا کہ میں تو صرف الازہر کا ایک طالب علم ہوں۔‘‘ اس آرٹیکل میں عبدالعزیز کا نام فرضی بتایا گیا ہے تاکہ اس کی اصل شناخت کو خفیہ رکھا جا سکے اور اسے مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چین اس وقت مصر میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ قاہرہ کے مشرق میں چینی حکومت نے بنیادی ڈھانچے اور کئی تعیمراتی منصوبے جاری کر رکھے ہیں۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں کے مابین تجارت کا حجم تقریباً چودہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ایغور مسلمانوں کی گرفتاریوں سے صرف تین ہفتے قبل ان دونوں ملکوں نے ‘انسداد دہشت گردی‘ کا ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔گرفتاری کے بعد عبدالعزیز کو کچھ بتائے بغیر ایک جیل میں بھیج دیا گیا، جہاں سے اسے ساٹھ دن بعد رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز نے فرار ہوتے ہوئے ترکی میں سیاسی پناہ کی درخواست دی اور گزشتہ اکتوبر سے وہ ترکی میں ہی موجود ہے۔اسی طرح شمس الدین کو مصر میں چار جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شمس الدین کے والد کا تعلق چینی علاقے سینکیانگ سے ہے۔ عبدالعزیز کے مطابق ابھی تک اس کا رابطہ اس کے دوست شمس الدین سے نہیں ہو سکا اور کسی کو یہ بھی علم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اْس وقت گرفتار ہونے والے ایغور مسلمانوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ان میں سے ‘گرین گروپ‘ میں شامل افراد کو بتدریج رہا کر دیا گیا تھا۔ جس گروپ کے لوگوں کو رہا کیا گیا، ان میں سے گیارہ کا کہنا ہے کہ ان سے چینی حکام تفتیش کرتے رہے اور انہوں نے خاص طور پر ان کے والدین سے متعلق سوالات کیے۔مصر درجنوں ایغور مسلمانوں کو گرفتاری کے بعد چین کے حوالے کر چکا ہے۔ اس حوالے سے مصری وزارت خارجہ کے ایک ترجمان احمد حفیظ کا کہنا تھا، ”جن کے ویزے ختم ہو چکے تھے، انہیں ان کے ملکوں میں واپس بھیجا گیا ہے اور ان میں چینی شہری بھی شامل ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ان ایغوروں کا کیا بنا، جنہیں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ساٹھ دن تک جیل میں رکھا تھا۔واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر ڈیرن بائلر کے مطابق چین صرف مصر میں ہی نہیں بلکہ تھائی لینڈ اور اس طرح کے کئی دیگر ملکوں میں بھی یہی طریقہ ء کار اپنائے ہوئے ہے۔ خبروں کے مطابق مصری حکام کی سخت کارروائیوں کی وجہ سے اس ملک میں آباد تقریبا چھ ہزار ایغور مسلمانوں کی تعداد کم ہو کر صرف پچاس خاندانوں تک محدود ہو گئی ہے۔ ایغور مسلمانوں کے لیے یہ بات بھی ایک صدمے سے کم نہیں ہے کہ مصر میں بھی ان سے تفتیش چینی حکام ہی کر رہے ہیں۔