مدارس اسلامیہ اپنے نظام میں ہائر سکنڈری تک کی تعلیم کو یقینی بنائیں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 14-September-2019

نئی دہلی:( پریس ریلیز)جمعیۃ علماء ہند نے مدارس ا سلامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ہائر سکنڈری تک کی تعلیم کو یقینی بنائیں ۔جمعیۃ علماء ہند نے اس سے متعلق دہلی میں ہونے والے اپنے اجلاس منتظمہ میں ایک تجویز منظورکی ہے۔ اجلاس میںملک بھر سے دو ہزار سے زائد اسلامک اسکالر س اور جمعیۃ کے ممبران شریک تھے ، یہ تجویز مشہور تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سلمان بجنوری نے پیش کی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری عثمان منصورپوری کی صدارت اور جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی کی نظامت میں منعقد اجلاس میں منظور کردہ اپنی تجویز میں کہا گیا ہے کہ موجودہ زمانے میں دعوی فریضہ کی انجام دہی ، ملی وسماجی معاملات کی صحیح رہ نمائی او رملکی حالات، نیز درپیش قوانین کا تقاضا ہے کہ مدارس اسلامیہ ، مکاتب دینیہ کے طلباء بنیادی عصری علوم ( مثلاسائنس ، جغرافیہ ، حساب ، ہندی اور انگریزی زبان وغیرہ سے آراستہ ہوں، بلکہ اچھی طرح واقف ہوںتاکہ فضلائے مدارس عصری تقاضوںسے ہم آہنگ ہو کر اپنی دینی وشرعی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں ۔اس پس منظر میں مجلس منتظمہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس مدار س اسلامیہ کے ذمہ داروں سے اپیل کرتاہے کہ مذکورہ تقاضوں کے مدنظر اپنے نظام تعلیم میں بنیادی عصری علوم کو شامل کریں ، اس سے مدارس و مکاتب کے نظام پر کیے جانیو الے جا و بے جا اعتراضات کا سدباب بھی ہو سکے گا اور ان اداروں کے بنیادی مقاصد کے حصول میں سہولت اور آسانی بھی ہو گی ۔ اس لیے ارباب مدارس ومکاتب اپنے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائے بغیر اپنے مکاتب میں پرائمری سطح سے اوپر مڈل اسکول تک کی تعلیم فراہم کریں اور مدارس و جامعات کے نظام تعلیم میں ہائر سکنڈری تک کی تعلیم کو یقینی بنائیں ۔ ّدیر شام تک جاری جاری رہنے والے مجلس منتظمہ کے اجلاس میںمذہبی شدت پسندی کی مذمت پر بھی ایک تجویز منظور ہوئی جس میں مذہبی شدت پسندی اور ایک خاص مزعومہ ثقافت کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش اور نفرت اور تحقیر آمیز کوششوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تشدد کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں موثر قانون بنا کر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ نیز اکثریت و اقلیت کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کی جائے؛ ورنہ اس کے نتائج ملک و قوم سبھی کے لیے سخت نقصان دہ ہوں گے۔ معیۃ علماء ہند نے ایک دوسری تجویز میں یو اے پی ایکٹ کی موجودہ ترمیمات پر بھی فکر وتشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس قانون میں جس طرح ایجنسیوں کو کسی بھی فرد کو مطلق طور سے دہشت گرد قرار دینے کا اختیار دیا گیا ہے ،و ہ شخصی آزادی پر شدید حملہ ہے اور اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ اسے سیاسی اور مذہبی عداوت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔دہشت گردی کے خلاف سخت سے سخت قانون بنے ، ہمیں منظور ہے ، مگر گزشتہ پندرہ سالوں کے تجربات کی روشنی میں جمعیۃ علماء ہند اس حقیقت کا برملا اظہار کرتی ہے کہ اگر سرکار کو اس ایکٹ کا جائزہ لینا تھا تو وہ اس کے منفی اثرات کا جائزہ لیتی اور قانون میں ترمیم کرکے بے لگام پولس اورایجنسیوں کو جوابدہ بناتی جن کے ہاتھ بے قصوروں کو طویل عرصے تک جیل میں رکھنے اور دہشت گردی کے الزام کی وجہ سے ان کی زندگی وکیرئیر کو برباد کرنے سے آلودہ ہیں ۔ن تمام تجاویز کی منظوری کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولاناقاری سید محمد عثمان منصورپوری کا صدارتی خطاب ہوا ۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایک دینی جماعت ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند جو بھی خدمت انجام دیتی ہے وہ سب دین کا حصہ ہے ، یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ جمعیۃ کے کاموں کو محض سیاسی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ انھوں نے ایمان کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اپنی اور نسل کے ایمان کی حفاظت ہر مسلمان کی اولین ذمہ دا ری ہے ۔ انھوں نے قرآن کی آیات واحادیث سے ثابت کیا کہ ایک مومن کے لیے سب بڑی نعمت ایمان ہے ۔ انھوں نے کہا کہ نسل نو کی دینی و فکری رہ نمائی اور اس کے مستقبل کی بہتری کے لیے ہم سب کو اقدام کرنا ہو گا۔آج ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے اور اسلام کے دشمن فکری ارتداد کو بڑھاوا دے رہے ہیں، اس لیے گمراہ جماعتوں کا تعاقب کیا جائے اور عام فہم زبان میں لٹریچر تیار کرکے لوگوں میں تقسیم کیا جائے ۔ذہبی تشدد سے متعلق تجویز پر خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل ؎ سکریٹری مولانا محمود مدنی نے دو ٹوک ا نداز میںکہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے اور برادران وطن کے ساتھ امن وامان کی کوشش اور شجرکاری مہم کسی مصلحت یا کسی سے ڈر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ سب ہم نے احساس ذمہ داری کے تحت کیا ہے تا کہ ان فرقہ پرستوں کے منفی پروپیگنڈا کا جواب دیا جاسکے جو مسلمانوں کے سلسلے میں برادران وطن کے دلوں میں نفرت کی آبیاری کررہے ہیں۔انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہمت وحوصلہ اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریںاور جب جان پر آپڑے تو اپنی جان کے تحفظ کے لیے بھر پوروفاع کریں ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے اندورنی حالات ہی ہمارے لیے خطرہ ہیں ، اسی لیے میں کہتاہوں کہ حالات حکومتوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے بلکہ اپنے احوال کو تبدیل کرنے سے بدلتے ہیں ۔اس سلسلے میں معروف عالم دین مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد نے تجویز پڑھتے ہوئے کہا کہ بزدلی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث نوجوانوں کے کیس لڑنے کے حوالے سے جمعیۃ کی کاگزاری پیش کی اور کہا کہ ملک میں اگر کہیں بھی ایجنسیاں نوجوانو ں کو نشانہ بناتی ہیں تو جمعیۃ کے مرکزی دفتر کو مطلع کیا جائے ، جمعیۃ علماء ہند ہر ممکن تعاون کرے گی۔ان کے علاوہ شام کو مولانا مفتی عبدالمغنی حیدرآباد ، مولاناشمس الدین بجلی کرناٹک، مفتی روشن قاسمی مہاراشٹرانے دو الگ الگ تجاویز پیش کیں ، جب کہ مولانا نیاز احمد فاروقی نے جمعیۃ علماء ہند کا بجٹ پیش کیا ۔ دیر رات صدر جمعیۃ علماء ہند کی دعاء پر اجلاس منتظمہ اختتام پذیر ہوا ۔مجلس کا آغاز قاری محمد فاروق کی تلاوت سے ہوا جب کہ نعت قاری نوشاد عادل نے پیش کی ۔