’امریکی صدر ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کی جرات نہیں کر سکتے‘

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 15-Oct-2019

انقرہ/واشنگٹن،امریکی صدر کی جانب سے سخت پابندیوں کی دھمکی کے بعد رواں ہفتے کے آغاز پر ترک لیرا کی قدر میں 0.6 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں کہ آیا امریکا واقعی ایسا کو قدم اٹھائے گا۔گزشتہ ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی کی قدر 5.885 تھی جو پیر چودہ اکتوبر کو گر کر 5.9205 رہ گئی۔ یوں رواں سال مئی کے بعد ترک لیرا اپنی کمزور ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس سال اب تک مجموعی طور پر ترک لیرا کی قدر میں بارہ فیصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ صرف اکتوبر کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے، تو ترک لیرا کی قدر 4.8 فیصد گری ہے۔ترکی نے گزشتہ ہفتے شمال مشرقی شام میں کردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ پیر چودہ اکتوبر کو اس عسکری کارروائی کو شروع ہوئے چھ دن ہو گئے ہیں۔ اس دوران عالمی سطح پر ترکی کی مذمت جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر انقرہ حکومت کے خلاف سخت پابندیوں کے نفاذ کی دھمکی دی جبکہ یورپی یونین میں بھی ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر وسیع تر پابندی زیر غور ہے۔البتہ کاروباری حلقے امریکی صدر کی جانب سے ترک اقتصادیات کو ‘تباہ کر ڈالنے‘ کی دھمکی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے۔ حال ہی میں پایہ تکمیل تک پہنچنے والی روسی 400- S طرز کے میزائل دفاعی نظام کی خریداری اور فراہمی کے وقت بھی امریکا نے ایسی ہی دھمکیاں دی تھیں تاہم کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارتی و کاروباری حلقے اس بار بھی کسی عملی قدم کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں۔’بلو بے ایسٹ مینیجنمنٹ‘ سے وابستہ ٹم ایش کا کہنا ہے کہ روسی 400- S میزائل دفاعی نظام کی ڈیل کے وقت کافی باتیں ہوئیں لیکن کچھ نہ ہوا۔ اس ہی لیے منڈیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ، ترکی کے خلاف حقیقی و با معنی پابندیاں عائد کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔امریکی سیکرٹری خزانہ اسٹیون منوچن نے گزشتہ ہفتے جمعے کے دن کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف انتہائی سخت پابندیوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس پر انقرہ حکومت نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پابندیوں کا جواب پابندیوں سے دیا جائے گا۔ پھر اتوار کو ٹرمپ نے بیان دیا کہ پابندیوں پر اراکین کانگریس کی مشاورت سے کام جاری ہے۔