مولانا آزاد ایک عہد ساز شخصیت، ہندوستانی مسلمانوں کیلئےمشعل راہ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 12-Nov-2019

حیدرآباد، (پریس نوٹ) مولانا ابوالکلام آزاد ایک تاریخ ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کیلئے مشعلِ راہ بھی ہیں۔ انہوں نے جدو جہد آزادی اور ملک کی آزادی کے بعد شاندار کارنامو ں کی میراث چھوڑنے کے ساتھ ایک اہم نظریہ ساز ideologue کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایسی شخصیت کو صرف خراج پیش کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان سے تحر یک حاصل کرنی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسکالر پروفیسر رضوان قیصر ، شعبۂ تاریخ و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلا میہ، دہلی نے آج ڈی ڈی ای آڈیٹوریم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس میں مولانا آزاد یادگاری خطبہ بعنوان ’’سیاست، تعلیم اور ثقافت: مولانا ابوالکلام آزاد اور ہند و ستانی قومیت‘‘ دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ایوب خان، پرو وا ئس چانسلر نے صدارت کی۔ مولانا آزاد کی نظریہ ساز شخصیت کے ارتقاء کا جائزہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر رضوا ن قیصر نے کہا کہ الہلال کے دور میں مولانا نے جن نظریا ت کی اشاعت کی ان میں یہ بات واضح تھی کہ اسلام اور غلامی دو متضاد چیزیں ہیں وہ ایک نہیں ہوسکتیں، اقلیت اور اکثریت کا فیصلہ افراد کی تعداد پر نہیں بلکہ کارناموں پر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو ہندوئوں سے دوری نہیں بلکہ دوستی کرنی چاہیے۔ اس طرح مولانا آزاد نے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو جدو جہد آزادی سے جوڑا وہیں ان کے پست ہوتے حوصلوں کو بلندی عطا کی اور بتایا کہ مسلمانوں کے اسلاف نے ملک کی ترقی و تعمیر میں اپنا خون پسینہ بہایا ہے اور ہندو – مسلم بھائی چارہ کے ذریعہ ملک کی آزادی کا حصول ممکن ہے۔ پروفیسر رضوان قیصر نے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر مولانا آزاد کے سیاسی نظریات کے آغاز کو 1912 میں الہلال کی اشاعت سے مربوط سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ 1906 ء میں ہی جدو جہد آزادی سے جڑ چکے تھے۔ مولانا آزاد اس وقت کے مجاہدین آزادی کو جو عمومی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تحریک آزادی سے وابستہ نہیں ہیں، کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ مسلمان بھی اس جنگ میں اُن کی طرح شریک ہیں۔ انہوں نے ابتداء میں الہلال میں کہا کہ مسلمان خود قائد بن کر جدو جہد آزادی کی کمان سنبھالیں۔ لیکن بعد میں ان کا یہ نظریہ بدل گیا اور انہوں نے برادران وطن کے ساتھ مل کر جدو جہد آزادی میں حصہ لینے پر زور دیا۔ جب 1916 میں رانچی میں انہیں نظر بند کردیا گیا تو انہوں نے وہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس کے قیام کا مقصد متعلمین کی تیاری تھا۔ اس مدرسے میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، جغرافیاء جیسے مضامین کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا۔ مدرسہ کے قیام کیلئے ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں نے تعاون کیا۔ گاندھی جی نے جب خلافت اور عدم تعاون تحریک چلائی تو اس وقت مولانا آزاد نے ہندو- مسلم اتحاد کو اسلام کے بین الاقوامی نظریہ سے جوڑتے ہوئے ’’تخلیقی سیاست‘‘ کا مظاہرہ کیا۔مولانا آزاد نے ہندو -مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے میثاقِ مدینہ کی مثا ل پیش کی اور کہا کہ ملک کی آزادی کیلئے یہی طریقۂ کار اپنانا ضروری ہے۔ وہ دو قومی نظریہ کے سخت مخالف تھے اور وفاقی حکومت چاہتے تھے۔ آج ملک میں وفاقی حکومت کی کامیا بی ان کے نظریہ کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ آزادی کے بعد جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے تعلیمی نظام کے استحکام کیلئے دو کمیشن قائم کیے۔ یونیورسٹی /کالج تعلیمی کمیشن اور ثانوی تعلیم کمیشن۔ دونوں اداروں کی کارکردگی آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مولانا نے ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی تنوع کو مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے ساہتیہ اکیڈیمی، للت کلا اکیڈیمی اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی جیسے اداروں کی داغ بیل ڈالی۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستا ن اور یہاں کی ثقافت کو فروغ دینے کیلئے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز قائم کیا۔ پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ مولانا آزاد کو محض خراج پیش کرنا کافی نہیں۔ ان کے پیام اور نظریات کو سمجھتے ہوئے ان سے تحریک حاصل کرنا ضرور ی ہے۔پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم فلسفی، ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات رہے۔