ہانگ کانگ میں یونیورسٹی کیمپس میدان جنگ بن گیا

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 16-Nov-2019

ہانگ کانگ،پولی ٹیکنک یونیورسٹی کیمپس میں موجود حکومت مخالف مظاہرین نے پولیس پر تیر چلائے اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ان جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ہانگ کانگ کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے کیمپس میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پولیس اور جمہوریت نواز مظاہرین کے درمیان شروع ہونے والی شدید جھڑپوں کے بعد افراتفری پھیل گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور تیز دھار نیلے رنگ کی مائع کا استعمال کیا جبکہ مظاہرین یونیورسٹی کی عمارت کے چھتوں سے سکیورٹی اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکتے رہے اور اور تیر برساتے رہے۔ہانگ کانگ پولیس نے ٹوئٹر پر زخمی پولیس اہلکار کی تصاویر شائع کرتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین پولیس پر اینٹیں، پیٹرول بم، اور تیر پھینک رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار ٹانگ میں تیر لگنے سے زخمی ہوگیا۔ اس پولیس اہلکار کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ہانگ کانگ میں طلبہ نے پچھلے آک ہفتے سے کئی یونیورسٹیوں میں احتجاج جاری رکھا ہوا تھا تاہم پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں یہ احتجاج ابھی تک جاری ہے اور یونیورسٹی کے باہر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات ہے۔پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے کیمپس کے کچھ حصوں کا منظر ایک ایسے جنگی میدان کی طرح لگ رہا ہے جہاں سیاہ پوش مظاہرین مورچوں میں چوکنا بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کے پاس اینٹیں، پیٹرول بم کے کریٹ، تیر اور کمان دیکھے جا سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم آہ لونگ نے بتایا کہ وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں،’’اگر ہم ثابت قدم نہیں رہے تو ہم ناکام ہوجائیں گے۔ لہٰذا کیوں نہ (سب کچھ) داؤ پر لگایا جائے۔‘‘علاوہ ازیں جمہوریت نواز قانون سازوں نے امن و امان قائم کرنے کے لیے ہانگ کانگ میں چینی فوج کی موجودگی پر شدید تنقید کی ہے۔ شہری حکومت کے ترجمان کے مطابق، ’’ہانگ کانگ انتظامیہ نے چینی فوج کو طلب نہیں کیا بلکہ چینی فوج کی جانب سے رضاکارانہ طور پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘ہانگ کانگ میں روان برس جون میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ چین کے اس خصوصی انتظامی علاقے کی سربراہ کیری لیم ایک ایسا قانون لاگو کرنا چاہتی تھیں، جس کے بعد مشتبہ افراد کی چین کو حوالگی کی راہ ہموار ہو جاتی۔ تاہم بعد ازاں حکومت نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین ابھی بھی پولیس تشدد اور بیجنگ حکومت کے اثر و رسوخ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔