مانو کے شعبۂ اردو میں ممتاز اسکالر پروفیسر علی احمد فاطمی کا لکچر

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 04-Dec-2019

حیدرآباد،(پریس ریلیز) معاصراردو ناو ل نگار موجودہ سماجی اور سیاسی صورتحال سے باخبر ہے۔ اسی لیے معاصر اردو ناول میں سماجی حقیقت نگاری ایک حاوی موضوع کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ ادب اور سماج کے رشتے پر ہزاروں ڈسکورس ہو چکے ہیں۔ ادب کا سماج سے گہرا رشتہ ہے اپنے عصر کے حالات کو پوری فنکارانہ دیانت کے ساتھ پیش کرنا ہی فنکار کا اولین فریضہ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ معاصر اردو ناول اس کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کل الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی ؛ شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کیا۔ پروفیسر فاطمی نے معاصر اردو ناول کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریم چند نے اپنی ناول نگاری کے ذریعے سماج کی جو تصویر بنائی تھی اب ہندوستانی سماج اس سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ حقیقت نگاری کے معیار اور میزان میں تبدیلی کے بغیر نئے معاشرے کی حقیقتوں پر قلم نہیں اٹھایا جاسکتا ۔ مسائل نئے ہیں تو انھیں حل کرنے کے طریقے بھی نئے ہونگے۔ پروفیسر فاطمی نے معاصر اردو ناول نگاروں کے ناولوں پر سیر حاصل تجزیہ پیش کیا اور بتایا کہ آج بھی اردو کا ناول نگار اپنے ادبی فرائض کو انجام دے رہا ہے۔ پروگرام کے آغاز میںشعبۂ اردو کے استادپروفیسر فاروق بخشی نے پروفیسر علی احمد فاطمی کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور کہا کہ پروفیسر فاطمی کی تحریروں کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھوں نے نظم و نثر دونوں کے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ اس اجلاس کے صدر مرکز مطالعات اردو ثقافت کے مشیر اعلیٰ جناب انیس احسن اعظمی تھے جنھوں نے ناول اور ڈرامے سے اپنی محبت کا بیان بڑے پر اثر انداز میں کیا۔ جلسے کے اختتام پر شعبۂ اُردو کی استاد ڈاکٹر مسرت جہاں نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پرشعبۂ اردو کے علاوہ دیگر شعبوں کے طلبہ اور اساتذہ بھی موجود تھے جن میں ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر ابو شہیم خاں، ڈاکٹر احمد خاں، پروفیسر شاہدہ، ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈاکٹر جنید ذاکر، ڈاکٹر رضوان ، ڈاکٹر فہیم الدین احمد وغیرہ شامل ہیں۔