کورونا وائرس: ایشیائی امریکیوں کو نسل پرستی میں اضافے کا خوف

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 25-March-2020

واشنگٹن،ایشیائی امریکیوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے نیا کورونا وائرس ان کے لیے ایک نئے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ایک ’چینی وائرس‘ قرار دیا ہے۔سارہ بیکر اور بل تشیما کے دادا دادی جاپانی تھے اور گزشتہ تین نسلوں سے یہ لوگ امریکی ہیں۔ دونوں ہی شمال مغربی ریاست واشنگٹن کے سب سے بڑے شہر سیئٹل میں رہتے ہیں اور اس شہر کو امریکا کے کورونا وائرس کے ‘ہوٹ اسپوٹ‘ میں بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اب تک سیئٹل میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر 90 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 750، 1 سے زیادہ متاثر ہیں۔سارہ بیکر اور بل تشیما دونوں ملک کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی ایشین امریکی شہری حقوق کی تنظیم جاپانی امریکن سیٹیزنز لیگ (جے اے سی ایل) کے بورڈ میں شامل ہیں۔ جے اے سی ایل کی سیئٹل میں یقائم شاخ کے لیے اپنے کاموں کو چھوڑ کر، انہوں نے ایشین امریکیوں کے لیے ایک ایسا فیس بک گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد کورونا وائرس کے متاثرین کی زندگی اور کاروبار پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ آن لائن برادری نے صرف 12 دنوںییی میں 11،000 سے زیادہ صارفین کو جمع کر لیا۔بل تشیما کے مطابق امریکا میں ‘اجانب دشمن‘ احساسات پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ جو کسی قابل شناخت ریس یا نسل سے متعلق ہو، اسے مختلف انداز سے لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کورونا وائرس انگلینڈ سے شروع ہوتا، تو بل تشیما کے خیال میں انگریز ینسل کے افراد کے خلاف ردعمل مختلف ہوتا۔بل تشیما کے بقول، ”جب نیا کورونا وائرس پہلی بار منظر عام پر آیا اور اس کے بارے میں چین میں ووہان سے خبریں آ رہی تھیں، سیئٹل میں ابتدائی رد عمل، ہم نے نوٹ کیا کہ بہت سارے لوگ بنیادی طور پر چائنا ٹاؤن سے گریز کر رہے ہیں۔‘‘ سیئٹل میں ایک چائنا ٹاؤن انٹرنیشنل ڈسٹرکٹ، جس کی شناخت (C) ہے، موجود ہے اور وہاں صرف چینی باشندے ہی نہیں بلکہ ویت نامی باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہے۔ اور وہاں بہت سارے فلپائنی بھی آباد ہیں۔چائنا ٹاؤن کی شناخت چھوٹے خاندانی کاروبار ہیں اور ایسے کاروبار کرنے والوں کا انحصار مقامی گاہکوں پر ہوتا ہے۔ سارہ بیکر نے کورونا بحران شروع ہوتے ہی فیس بک پوسٹس شائع کرنا شروع کر دی تھیں، جن میں اس افسوسناک صورتحال پر روشنی ڈالی گئی کہ چائنا ٹاؤن کا کاروبار کتنا ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور اس سے مقامی باشندے کس قدر متاثر ہو رہے ہیں۔