یورپ میں خواتین گھر، گھر ماسک سینے لگیں

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 23-March-2020

پیرس،یورپی ممالک کو کرونا وائرس نے بری طرح اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔ انگنت لوگ گھروں تک محدود ہوگئے ہیں جس سے سڑکیں ویران اور شاہراہیں سنسان ہیں۔ایسے میں ہزاروں خواتین نے گھر، گھر ماسک تیار کرنا شروع کردیے ہیں اور اب تک لاکھوں ماسک سی کر اسپتالوں کو فروخت کیے جا چکے ہیں۔خبروں کے مطابق خواتین کی اس کوشش کو سراہتے ہوئے چیک ری پبلک، اسپین، بلغاریہ، جرمنی، ہنگری، لیتھوانیا اور اٹلی سمیت کئی ممالک میں ماسک تیار کرنے والی درجنوں کمپنیوں نے بھی دن رات ماسک کی خریداری شروع کر دی ہے۔ جس کے نتیجے میں آرڈرز کی لائن لگ گئی ہے۔پراگ کے فلمی فنکار اور اہم شخصیت یہاں تک کہ چیک کے صدر ویکلیو ہاول کی اہلیہ ڈیگمر ہولووا بھی ماسک تیار کرنے والی خواتین میں شامل ہیں۔مغربی جرمنی کے شہر ایسن کے ایک اسپتال نے اپنے مریضوں کے لیے کلرکوں سے لے کر مالی تک تمام غیر طبی عملے سے ماسک تیار کروانا شروع کر دیے ہیں۔خبروںکے مطابق ابتدا میں کچھ خواتین نے قیدیوں کے لیے ماسک سینے شروع کیے تھے لیکن آج یورپ میں گھر گھر فیس ماسک کی تیاری اور سپلائی جاری ہے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ کاروبار کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو گئی ہیں۔یورپ سمیت دنیا بھرمیں انگنت افراد کی صحت کو کرونا وائرس سے خطرہ ہے جب کہ عالمی سطح پر ماسک کی شدید قلت ہے۔پچھلے ہفتے تک یورپی ملک چیک ری پبلک کی ایک کمپنی نانواسپیس لینن کے ملبوسات تیار کرتی تھی لیکن جیسے ہیں کرونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا کمپنی نے جنوبی کوریا کے دو اسپتالوں کے لیے یومیہ 10 ہزار ماسک تیار کرنا شروع کر دیے۔ کمپنی نے 14 مارچ سے ماسک کی تیاری شروع کی تھی۔خبروں کے مطابق نینو اسپیس سیلز کے ڈائریکٹر جیری کوس نے بتایا کہ وہ اسپتالوں کو نہ نفع نا نقصان کی بنیاد پر ماسک سپلائی کرتے ہیں۔ اسپتالوں سے صرف لاگت وصول کرتے ہیں۔عالمی ماہرین صحت نے عوام کو حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا ہے تاہم کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انفیکشن کو روکنے میں ماسک اور دستانے غیر موثر ہیں۔چیک فیس بک گروپ ماسک کی تیاری کے لیے مقبول ہوتا جا رہا ہے اس کے 33 ہزار سے زائد فلورز ہیں۔چیک ری-پبلک کے شہر پراگ میں لوگوں کو حکومتی سطح پر گھروں تک محدود رہنے اور ماسک پہننے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ جب کہ اس کی تمام سرحدیں بند ہیں۔ اسے میں گھر گھرماسک کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔چیک ری-پبلک کے پڑوسی ملک پولینڈ میں چیک شہری خواتین جنہوں نے پناہ گزینوں کی حیثیت سے اپنی ایک ٹیم تشکیل دی تھی وہ بھی اسپتالوں کے لیے بڑے پیمانے پر ماسک تیار کر رہی ہے۔ہزاروں یورپین شہری ماسک کی سلائی کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں کیوں کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں تک محدود ہیں اور مصروفیت برقرار رکھنے کے لیے ماسک کی سلائی کو بطور کاروبار اختیار کر رہے ہیں۔یورپی ملک اٹلی کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لہذا یہاں بھی گھر گھر ماسک تیار کیے جانے لگے ہیں۔اٹلی میں ہفتے تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 4800 ہوگئی تھی جب کہ 53 ہزار سے زائد افراد کے انفیکشن میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ایک مقامی روزنامے کی خبر کے مطابق اطالوی کپڑے تیار کرنے والی کمپنی میرو گلیو نے بھی خواتین سے ماسک سلوانے شروع کر دیے ہیں۔کمپنی زور دے رہی ہے کہ ماسک کی تیاری جلد از جلد یومیہ 75000 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ جائے۔خبروں کے مطابق بیگ بنانے والی ہسپانوی کمپنی ڈیسنوس این ٹی نے بتایا کہ وہ اپنی اندلس کی فیکٹری میں روزانہ 70 سے 80 ہزار ماسک تیار کر رہی ہے اور ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کرتی۔دنیا کا سب سے بڑا فیشن گروپ گلیشیا بھی اب ماسک کی تیاری میں پیش پیش ہے۔خبروںکے مطابق یورپی ملک اسپین خطے کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں ہفتے تک 1326 افراد کرونا کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے تھے جب کہ تقریبا 25 ہزار افراد میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔وہاں ماسک کی کمی کو خواتین اپنے ہاتھوں سے سلے ماسک کے ذریعے پوری کر رہی ہیں۔لتھوانیا کے وزیر انصاف الیلوس جنکیوسیوس نے بتایا کہ لیتھوانیا کی چھوٹی یوروپی ریاست بالٹک میں خواتین قیدیوں کا مقصد ایک ہفتے میں 10000 ماسک تیار کرنا ہے تاکہ جیلوں میں استعمال کرنے کے لیے مالسک دستیاب ہوں۔فروری میں یورپ کے ایک اور ملک ہنگری میں خواتین نے تین لاکھ قیدیوں کے لیے ماسک تیار کیے تھے۔بلغاریہ میں یورپ کی سویٹ شاپ کو انتہائی کم لاگت سے چلنے والی فاسٹ فیشن فیکٹریوں میں شمار کیا جاتا ہے اب اس نے بھی بڑی تعداد میں ماسک تیار کرنے شروع کر دیے ہیں۔مشرقی بلغاریہ میں ملبوسات بنانے والے افراد نے بھی رضاکارانہ طور پر ماسک بنانے کا کام شروع کر دیا ہے جب کہ دارالحکومت صوفیہ میں قائم بچوں کے ملبوسات بنانے والی چار بڑی کمپنیاں ملبوسات کی تیاری کم کرکے بڑے پیمانے پر ماسک بنا رہی ہیں۔جرمنی کی اسپورٹس ڈریس تیار کرنے والی دو کمپنیوں نے اپنے اصل کام کے بجائے ماسک سینے کا کام سنبھال لیا ہے۔