اندور کے بعد بھوپال میں بھی مسلمانوں نے پیش کی مثال، ہندو ’اَرتھی‘ کو دیا کندھا

تاثیر نیوز نیٹ ورک۔16؍اپریل 2020

بھوپال16اپریل(ایجنسی):مدھیہ پردیش کے اندور میں ہندو اَرتھی کو مسلمانوں کے ذریعہ کندھا دینے اور آخری رسومات ادا کرنے کی خبر گزشتہ دنوں آئی تھی، ایک بار پھر مدھیہ پردیش سے ہی مسلمانوں کے ذریعہ انسانیت کی مثال پیش کیے جانے کی خبر موصول ہو رہی ہے۔ اس بار مہلوک ایک خاتون تھی اور اس کے بیٹے نے ہندو پڑوسیوں سے لاکھ منتیں کیں، لیکن کورونا انفیکشن کی دہشت کے سبب کوئی اس کی ماں کو کندھا دینے نہیں آیا۔ ایسے وقت میں کچھ مسلم دوستوں کا ساتھ ملا اور پھر آخری رسومات ادا کی گئیں۔میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق بھوپال کے ٹیلہ جمال پورہ باشندہ موہن نام دیو گول گپے کا ٹھیلہ لگاتا ہے اور اس کی 50 سالہ بیوی چھما کی موت منگل کے روز ہو گئی۔ موہن لال کے دو بیٹے اس کے ساتھ رہتے ہیں، ان بیٹوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں سے کہا کہ وہ آخری رسوم میں شامل ہو جائیں، لیکن کوئی گھر سے نکل کر نہیں آیا۔ پھر دونوں بیٹوں نے اپنے دوست عادل سے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ جب وہاں کے مقامی مسلمانوں کو اس بات کی خبر لگی تو وہ مدد کے لیے آگے آئے۔ عادل اور دیگر مقامی مسلمانوں نے نہ صرف چھما کی ارتھی کو کندھا دیا بلکہ راستے بھر ‘رام نام ستیہ ہے’ کا ورد بھی کیا۔سب سے پہلے عادل کی مدد سے چھما کے بیٹے ماں کی لاش میونسپل کارپوریشن کی گاڑی سے گھر لے کر پہنچے۔ بدھ کے روز عادل نے محلے کے سبھی لوگوں کو اس کی جانکاری دی۔ اس کے بعد لوگ ارتھی سجانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ پاس سے کوئی بانس کاٹ کر لا رہا تھا تو کوئی پھولوں سے اسے سجا رہا تھا۔ اس کے بعد چھما کے دونوں بیٹے اور محلے کے مسلم نوجوان لاش کو لے کر چھولا روڈ واقع لاش جلانے کے لیے مقرر کردہ جگہ پر پہنچے اور آخری رسومات ادا کی گئیں۔اس پورے معاملہ میں چھما کے بیٹوں کے ایک دوست شاہد نے کہا کہ “اس بستی میں تقریباً 500 سے زیادہ ہندو فیملی رہتی ہے۔ کورونا کا خوف اس وقت اتنا لوگوں کے دل میں ہے کہ ہندو فیملی کا کوئی آدمی چھما کے گھر والوں کا حال جاننے کے لیے نہیں پہنچا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے رشتہ دار بھی نہیں پہنچے۔”مسلمانوں کے ذریعہ پیش کی گئی انسانیت کی اس مثال کی سبھی طرف تعریف ہو رہی ہے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر کمل ناتھ نے بھی ہندو اَرتھی کو کندھا دینے کے لیے مسلمانوں کی تعریف کی اور کہا کہ “اندور کے ساؤتھ توڑا کے بعد بھوپال کے ٹیلہ جمال پورہ علاقے سے بھی سامنے آئی فرقہ وارانہ خیرسگالی کی تصویر۔ ایک ہندو خاتون کی اَرتھی کو مسلم سماج کے نوجوانوں نے دیا کندھا۔ اسی طرح کی آپسی محبت اور بھائی چارگی ہماری گنگا-جمنی تہذیب کو ظاہر کرتا ہے۔”قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے بلند شہر میں بھی اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب ہندو اَرتھی کو کندھا دینے کے لیے کوئی ہندو پڑوسی باہر نہیں نکلا تھا اور پھر مقامی مسلمانوں نے آخری رسومات ادا کرنے میں اہم کردار نبھایا تھا۔ دراصل بلند شہر میں ایک غریب شخص روی شنکر کی موت ہو گئی تھی اور اس کی ارتھی کو کندھا دینے کے لیے بیٹے کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ دار یا پڑوسی آگے نہیں آیا تھا۔ روی شنکر کی موت سے غمزدہ بیٹے کے لئے یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا کہ ارتھی کو کندھا دینے والا اور اسے شمشان تک پہنچانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد محلے کے کچھ مسلمان روی شنکر کے گھر پہنچے اور انہوں نے تسلی دی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے ارتھی تیار کرنے میں مدد کی اور اسے کالی ندی پر واقع شمشان گھاٹ تک بھی لے کر گئے۔