رمضان المبارک کا استقبال کیسے کریں؟

تاثیر نیوز نیٹ ورک، 18؍اپریل، 2020

تحریر:فرح ناز
ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک اس کی زندگی میں آئے، اور ہر مسلمان کی تمنا اور دعا یہ بھی ہوتی ہے کہ ماہ رمضان میں کیے ہوئے تمام نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول فرمالے۔ عبادتوں کے اس موسم بہار سے ہم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ روزے کے کیا آداب ہیں، ہمیں کون سے کام زیادہ کرنے چاہیں اور کن کاموں کو چھوڑ دینا چاہیے، ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کی قبولیت کے لیے ماہ رمضان سے متعلق احکام کو ضرور جانے، استقبال رمضان کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ذیل میں کچھ اہم باتیں بیان کی جا رہی ہیں، جن پر عمل کر کے ہم اس ماہ مبارک کے شب و روز کو اپنے لیے قیمتی بنا سکتے ہیں۔
اکثر لوگوں کو روزے کے بہت سے مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا، اپنی لاعلمی اور کوتاہی کے سبب وہ بہت سی ایسی غلطیوں میں مبتلا دیکھے گئے ہیں جو روزے کے اجرکو ضایع کر دینے والی ہوتی ہیں، ایسی صورتحال میں شرم و جھجک کے بجائے اگر کوئی بھی بات یا مسئلہ معلوم نہ ہو تو علماءکرام سے اس کے متعلق پوچھ لینا چاہیے۔ دنیا بھر کے مسلمان آمد رمضان سے بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اس معزز مہینے کے استقبال میں کھیل تماشے، آتش بازی اور پٹاخے وغیرہ چلانا اچھا فعل نہیں ۔بعض لوگ رمضان آنے پر توبہ تائب ہو کر پورامہینہ نماز پڑھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں،لیکن عیدالفطر کا چاند نظر آتے ہی اپنے نفس کو پھر خواہشوں کا غلام بنا کر ہر اس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے بچنے کی مشق میں اس نے پورا مہینہ گزاردیا، گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے سارے نیک عمل چھوٹتے جاتے ہیں جن کا اس نے رمضان میں اپنے آپ کو پابند کیا تھا۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ماہ رمضان کے اصل مقصد کو سمجھتے ہوئے گناہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرے کیوں کہ گناہ تو ہروقت حرام ہے۔ ہمیں رمضان کا استقبال اس عزم اور نیت کے ساتھ کرنا چاہیے کہ اب کی بار جو جو غلط کام چھوڑیں گے کبھی دوبارہ ان کے پاس بھی نہیں بھٹکیں گے۔
ماہ رمضان میں رحمتوں کا بے شمار نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بہترین اور عمدہ چیزوں سے نوازتا ہے۔ سحروافطار میں دسترخوان رنگا رنگ نعمتوں سے سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ اکثر خواتین پورے رمضان میں اپنا زیادہ وقت کھانے پینے کی چیزوں اور دیگر اہتمام میں سرف کر دیتی ہیں، جس کے باعث وہ اس مبارک مہینے کی بیش قیمت لمحات کو عبادت کے بجائے دیگر امور خانہ داری میں ضایع کر دیتی ہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنا ضروری ہیں۔ لیکن ہم کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ گزرے ہوئے لمحات کبھی واپس نہیں آتے ، لہٰذا ہمیں اس قیمتی وقت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادت، قرآن مجید کی تلاوت، اور ذکر واذکار کا اہتما کرنا چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں رب کو زیادہ یاد کرنے اور زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا ہے۔ رمضان کو صرف کھانے پینے کا مہینہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔ اسی طرح وقت کے صحیح استعمال کے ساتھ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ کے فضل سے ملنے والی تمام نعمتوں سے استفاد کیا جائے لیکن اسراف جسے فضول خرچی کا نام دیا جاتا ہے اس سے بچا جائے۔
ماہ رمضان میں اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دن کا زیادہ دورانیہ سونے اور سستی میں گزار دیتے ہیں، جبکہ اکثر رات کا جاگنا فضول باتوں ، بے کار محفلوں یا بلا مقصد ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر گزر جاتا ہے۔ اکثر بدبخت تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی نفسانی خوہشات پوری نہ ہونے کی وجہ سے غمگین نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہ چند دن ہوتے ہی گنتی کے ہیں ان کو اپنے گناہ دھونے اور نیکوں کا ذخیرہ بڑھانے میں استعمال کرنا چاہیے۔ اگر کوئی خوش قسمت محنتی مزدور کی طرح شب و روز ایک کردے تو اس کا مالک اسے بہترین اجرت دینے والا ہے۔ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ غیر ضروری استعمال زبان کا کیا جاتا ہے، بلا ضرورت اور بلا مقصد بولنے کی بیماری میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مبتلا ہے۔ ایسی بُری خصلت سے مجبور لوگ روزے کی حالت میں ابھی اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے۔ چنانچہ غیبت، لعن طعن، گالی دینا اور دیگربہت سی بری باتیں روزے کے اجر کو ضایع کر دیتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
رمضان کے استقبال میں ہمیں ایک اور بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تمام نشہ آور اشیاءبالاتفاق حرام ہیں، ایسی چیزوں کے استعمال سے منہ میں پیدا ہونے والی ناگوار بدبو انسانوں اور فرشتوں کے لیے باعث تکلیف ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے نشے میں عادی لوگ روزہ ایسی حرام اشیاءجیسے سیگرٹ ، نسوار ، گٹکا وغیرہ سے افطارکرتے ہیں۔ روزہ ایک عبادت اور مقدس کام ہے اس کا ہمیں احترام کرنا چاہیے اور روزہ افطار بھی ایسی چیزوں سے کرنا چاہیے جو پاک و حلال ہوں۔ کوشش کریں کے روزہ افطار کرتے وقت زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، کیوں کہ یہ مناجات کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صیام کی راتوں میں ایمان و اجر کی نیت سے قیام کرنے والوں کو یہ بشارت دی ہے کہ ان کے تمام سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کچھ لوگ نماز تراویح پڑھتے ہی نہیںاور کچھ پڑھنے کے لیے تو جاتے ہیں مگر مختصر سی نماز کے بعد مساجد میں ہی گپ شپ میں مصروف ہو جاتے ہیں اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی باتوں اور فضول حرکتوں سے کسی کی عبادت میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن ان کا پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ عبادت ان پر ایک بوجھ ہے جس کو وہ جلد از جلد اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ اتنی تیز اور بغیر رکوع و سجود کے نماز پڑھنے میں عوام کے علاوہ ہمارے ائمہ کرام کا بھی قصور ہے۔ نماز تراویح میں قرآن کو اس قدر تیز پڑھا جاتا ہے کہ نماز کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے اور رکوع و سجود کو بھی نہایت اطمینان سے کرنا چاہیے۔ رکوع، سجود، قومہ ، جلسہ اور قیام و قعود بھی نماز کے ایسے ارکان ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا نماز تراویخ میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید ختم کرنے کے چکر میں نماز کے رکوع و سجود کو پورا نہ کرنے کی چوری اور تلاوت قرآن مجید کا حق ادا نہ کرنا، بجائے ثواب کے کہیں باعث گناہ وعتاب نہ بن جائے۔
رمضان کی آخری دس راتوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ ہمیں ان دس راتوں میں قیام پر حریص ہوجانا چاہئے۔ کیوں کہ ان میں لیلة القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر و افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ رب کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کو منانے کے یہ لمحات بھی ہم ضایع کر دیتے ہیں۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اکثر مساجد میں محفل شبینہ منعقد کی جاتی ہیں اور ساری ساری رات مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں میں علماءکے وعظ اور حمد و نعت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس سے نہ اس محفل کا کوئی فرد قیام اللیل کر سکتا ہے بلکہ محلے میں موجود دیگر عبادت کرنے والوں کے خشوع و خضوع میں فرق آتا ہے۔ کوشش کریں کہ بلا عذر کوئی روزہ نہ چھوڑیں، زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے۔ برے دوستوں سے دور اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو افطار کروانا چاہیے یہ باعث اجر ہے۔ صدقہ و خیرات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اور اس عظیم عمل کے احترام میں غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت ماہ کی تمام نیکیاں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔
fnaaz4aes@gmail.com