ضلع انتظامیہ کے تعاون سے بیدر شہر میں عوامی خدمات

تاثیر اردو نیوز نیٹورک: Apr 23, 2020

ضلع انتظامیہ کے تعاون سے لاک ڈائون کی وجہ سے بیدر میں رابطے ملت کی زیرِسرپرستی بیدر شہر میں عوامی خدمات رضاکارانہ طورپر کئے جارہے ہیں
بیدر کے معروف سوشیل ورکر  محمد عامر پاشاہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تفصیل بتائی۔

بیدر۔23؍اپریل۔(محمدامین نواز)۔

 محمد عامر پاشاہ معروف سوشیل ورکربیدرنے صحافیوںکو بتایا کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون جاری ہے۔یہاں قدیم بیدر شہر میں بیدر کے بلدی وارڈ نمبر1سے12تک کنٹنمنٹ ایریا و سیل ڈائون قرار دیاگیا ہے۔جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ضلع انتظامیہ کی جانب سے احتیاطی اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ عوام گھر سے باہر نہ نکلے ۔ضلع انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے بیدر شہر کی این جی اوز نے رابطہ ملت کے زیرسرپرستی ایک ٹیم بنائی گئی ہے۔ اور ضلع انتظامیہ سے عوامی مشکلات و دشواریوں کے سلسلہ میں بات چیت کی گئی اور کہا گیا کہ اس سیل ڈائون مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور تمام کام بند ہیں ایسی صورتحال حال میں جن کی آمدنی انتہائی کم ہے جیسے آٹو چلانے والے‘ پنکچر بنانے جوڑنے والے‘ پھل فروش‘ سنٹرنگ اور پلاسٹر کا کام کرنے والے تعمیراتی مزدور‘ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروںوغیرہ کی روز مرہ کی زندگی بسرے کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا اور متوسط خاندانوں کابھی ایسی کچھ تکالیف کا شکا رہیں ۔اندشواریوں اور مشکلات کودور کرنے کیلئے کوشش جاری ہے ۔جناب محمد عامر پاشاہ نے بتایا کہ میںبھی رابطہ ملت کے ساتھ جوڑ کر کام کررہا ہوں اور ملی اور انسانیت کیلئے کچھ کرنے کاعزم لے کر خدمات کرنا میرا مقصد ہے۔انھوں نے کہا کہ ان ایک ماہ کے دوران ضلع انتظامیہ کا ارادہ میڈیکل اسٹور تک بند کردینے کا تھا ‘لوگوں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے ضلع انتظامیہ سے نمائندگی پر دُکانوں کے ذریعہ رقم دینے پر ادویات قدیم شہر کے مریضوں کو مل رہی ہے۔ اور یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کہہ نہیں سکتے۔ ضلع انتظامیہ نے ایک سیٹ ایپ بنایا جس میں اشیائے ضروریہ ‘ترکاری ‘دودھ گھروں تک سرویس کیلئے وینڈر دئیے گئے ہیں ۔پینے کے پانی کو پہنچانے کا نظم بنایا گیا ہے۔ان تمام انتظامات پر نگاہ رکھنے کیلئے ۔2-3والینٹئرس دئیے گئے ہیں ان سے وہی لوگ خریدیں گے جن کے پاس پیسہ ہے

‘انھوں نے کہا کہ میں جس محلہ میں رہتا ہوں5-6ہزار 700ر کی آبادی والا محلہ ہے جہاں بی پی ایل راشن کارڈ دہندگان ہیں۔حکومت کی جانب سے ان میں چاول تقسیم کردیا ہے گیا ہے۔ صرف چاول بناکر ا سکے ساتھ دال‘نمک‘ مرچ ‘ٹماٹر‘ پیاز وغیرہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ایسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے رابطہ ملت کی زیر سرپرستی حلقہ واری کمیٹیوں کو تشکیل دے کر کام کیا جارہاہے۔ تمام محلہ جات کا سروے کرنے کے بعد 100-150راشن کٹس کی تقسیم سے معاملہ تھوڑا سا کنٹرول ہوا ہے۔ رابطہ ملت سے بھی ہر محلہ کو40-50راشن کٹس محلہ واری سطح پر والیینٹئرس نے مسجد کے آس پاس کے ذمہ داران کو دئیے ہیں اور بھی لوگوں کے مطالبات ہیں اس پر بھی کام ہورہاہے۔ جناب محمد عامر پاشاہ نے مزید بتایا کہ تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں وغیرہ کے گھروں میں ماں باپ یا کوئی بیمار ضرور ہیں ۔عمومی طورپر بلڈ پریشر ‘شوگر‘ تھائرائیڈ‘ امراض قلب و دیگر بیماریوں کی شکایت عام ہے ۔ایسے اشخاص کی شناخت کرکے ایک ماہ کی ادیات انکے مکانات تک پہنچائی گئی ہیں ۔مزید کام کی ضرورت ہے ۔انھو ںنے دیگر ایسے افراد کا ذکر کیا جو اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے حمیلہ پور ‘ ابوالفیض‘ چدری‘ اور میلور علاقوں میں غربا تک امداد پہنچارہے ہیں ۔جس سے 30فیصد تک راحت ہے۔ یہی زمینی حقائق ہیں البتہ زیادہ تکلیف دواخانوں کے انتظام کی ہے۔میٹرنیٹی ‘بچوں کے امراض‘ ہڈیوں ‘اور ڈائیلاسیس کے مسائل روز مرہ کے ہیں۔ یہ مسائل 40فیصد بھی حل نہیں ہورہے ہیں ۔بہت بیمار لوگ ہیں تو انھیں قدیم شہر سے باہر پولیس جانے تو دیتی ہے لیکن جب سرکاری اسپتال میں مریض کو ڈاکٹروں سے رجوع ہوکر جب گھر واپس ہوتا ہے تو داخلہ نہیں ملتا۔آخر گھنٹہ و آدھاگھنٹہ کے بعد نہایت ہی عاجزی و کشمکش کے بعد پولیس قدیم شہر میں آنے دیتی ہے۔

انھو ںنے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ سیل ڈائون سے صد فیصد بیماری کو روکا جاسکتا ہے تو پھر قدیم شہر میں واقع100بیڈیڈ کیاسپتال کو پوری طرح کھول دینا چاہئے۔ میٹر نیٹی کے مسئلہ اور ایک آدھ بیماری کے تعلق سے اندرون شہر میں حیات اسپتال کو ذمہ داری دی گئی ہے ۔اور انھیں صبح8بجے سے8بجے رات تک کھلارکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اب وہ بھی شام4بجے تک کردی گئی ہے۔ ہم نے اپنے سماجی کارکن بھائیوں کے ساتھ جاکر اس اسپتال کاجائزہ لیا ہے۔ یہاں فرسٹ ایڈ مل سکتا ہے لیکن سیزرنگ ‘آرتھو‘ ٹریٹمنٹ یا بچوں کے امراض کی صورت میں کوئی علاج کی سہولت نہیں ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے پٹائی ‘ کہیں نہ کہیں پر پولیس کا لاٹھی چلائی جارہی ہے ۔جینوین آدمی گھر سے باہرنکلنے کی ہمت کر نہیں سکتا ۔ ادویات کی ضرورت ہے یا رقم کی ضرورت ہے اور ا سکو لینے جارہے ہیں تو پولیس روک دیتی ہے۔ اس کے بعد کی کارروائی سے ہر شریف آدمی ڈرتا ہے۔ اشیائے ضروریہ کیلئے کچھ افراد ماہانہ ادھار لیتے ہیں وہ الاٹ کردہ کرانہ کی دُکانوں کوجانہیںسکتے۔ ضرورت کی اشیاء جیسے دودھ‘ ادویات‘ وغیرہ کیلئے جاتے ہوئے موٹر گاڑیاں ضبط کر لیجاتی ہیں۔ جرمانہ بھر کر گاڑی واپس لینے کیلئے رقم نہیں ہے۔جناب محمد عامر پاشا ہ نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ کسی بھی این جی او کو حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں ہے۔ جو کچھ ملتا ہے وہ زکواۃ‘ عطیات‘ شہر و بیرون شہر کے اہلِ خیر سے ملتا ہے۔ اس لئے میری گذارش ہے کہ این جی اوز کے علاوہ سیاسی والینٹئرس کوبھی کام کیلئے آگے آنا چاہئے۔ دوسری جانب کچھ ایسے والینٹئیرس ہیں جو اپنی مرضی سے کام کرناچاہتے ہیں لیکن ضلع انتظامیہ انھیں موقع نہیں دے رہا ہے۔ وہ ان کے ضمن میںجانچ پڑتال کے بعدکام کاموقع دے۔ یہ میری ضلع انتظامیہ سے گزارش ہے۔٭٭٭