Pin-Up Казино

Не менее важно и то, что доступны десятки разработчиков онлайн-слотов и игр для казино. Игроки могут особенно найти свои любимые слоты, просматривая выбор и изучая своих любимых разработчиков. В настоящее время в Pin-Up Казино доступно множество чрезвычайно популярных видеослотов и игр казино.

آرٹیکل

آہ مجتبیٰ حسین!!! عظیم ظرافت نگاروں کا آخری درویش رخصت ہوا

Written by Taasir Newspaper

Taasir Urdu News Network | May 27, 2020

مجتبیٰ حسین کا انتقال اردو کے ظریفانہ ادب کے لیے شگونِ بد ہے۔ ۲۰۱۸ء میں مشتاق احمد یوسفی کے بعد برِّ صغیر ہند وپاک میں مجتبیٰ حسین کی ظرافت آخری آبروٗ تھے۔ ان کے جانے کے بعد اَب ہماری بزم میں کوئی قدِّ آدم ظرافت نگار موجود نہیں۔

صفدرا مام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

اِدھر کچھ مہینوںسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب مجتبیٰ حسین کچھ ہی دنوں کے مہمان ہیں۔ ان کی طرف سے فون کے آنے جانے کا جیسے ہی سلسلہ بند ہوتا، ایک تشویش لاحق ہونے لگتی تھی۔ وہ صحت مند رہیں گے تو خود ہی دو چار دن میں ایک بار فون کر لیں گے۔ ہر بار رسماً ضرور یہ کہتے کہ اب میرا کوئی ٹھکانا نہیں مگر بات چیت میں وہ آپ کو شگفتہ کر دیں گے۔ اِدھر جب اُن کی طرف سے فون آنے بند ہوئے اور یہ معلوم ہوا کہ وہ اب براہِ راست فون سے نہیں بات کر پائی گے، اس سے بڑھ کر ہمیں کوئی دوسرا ثبوت نہیں چاہیے تھا کہ اب ان کا جسم ساتھ نہیں دے پائے گا۔ بیچ بیچ میں اخبارات یا سوشل میڈیا میں اُن کے سلسلے سے مِلی جُلی خبریں آتی رہیں۔ کورونا کی پریشان کُن خبروں میںدو مہینے یوں ہی نکل گئے۔ عید بھی آئی تو ہارتی کانپتی اور غیر مسرّت بخش صورت میں ہی حاصل ہوئی اور اب عید کے تیسرے دن واقعتا اردو کے اُدبا و شعر کے لیے محرّم کا مہینہ شروع ہو گیا جب ہم نے اردو طنز و ظرافت کا آخری تاج دار مجتبیٰ حسین کی شکل میں کھو دیا۔

رشیداحمد صدیقی کے بعد اردو میں ظرافت نگاروں کا ایک قافلہ ہمارے سامنے آیا تھا۔ ابنِ انشا، کرنل محمّد خاں، کنھیّا لال کپور، یوسف ناظم کب کے رخصت ہوئے۔ ایک مُدّت سے پاکستان میں مشتاق احمد یوسفی اور ہندستا ن میں مجتبیٰ حسین اردو کے ظریفانہ ادب کی دستار سنبھالے ہوئے تھے۔ ۲۰۰۸ء میں مشتا ق احمد یوسفی اپنی پانچ لا زوال کتابوں کے ساتھ رخصت ہوئے اور ۲۷؍ مئی ۲۰۲۰ء کو مجتبیٰ حسین کا رخصت ہونا ایسا ہی ہے جیسے اب ہماری زبان میں طنز و ظرافت کی عظیم روایت کا خاتمہ ہوا۔ بازار میں تھوڑے بہت مزاحیہ شاعر اور ادیب ہیں۔ کچھ خاکہ نگار اور سفر نامہ لکھنے والے بھی اُبھر کر سامنے آرہے ہیں مگر اُن میں ایسا کوئی نہیں ہے جو مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین کی جگہ لے سکے۔ ظرافت کی یہ بستی پتا نہیں کب تک کسی قدِّ آدم فن کار کا انتظار کرے گی۔

مجتبیٰ حسین کی کئی حیثیتیں ہیں۔وہ اوّل ظرافت نگار ہیں۔ انھوں نے نصف صدی سے زیادہ مُدّت تک اخبارات میں لگاتار کالم لکھے۔ بے تکان کالم نگاری کی وجہ سے ان کی خوب خوب شہرت ہوئی۔ انھوں نے دیڑھ سو سے زیادہ ادیبوں ، شاعروں اور دیگر شخصیات کے خاکے لکھے۔ ۱۹۸۳ء میں جاپان چلو،جاپان چلو سے اُن کی سفر نامہ نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ ’سفرِلخت لخت‘ اور اس کے بعد’ امریکا گھاس کاٹ رہا ہے‘ جیسے سفر نامے اردومیں اس نصف صدی کے بہترین نمونے ہیں۔اُن کی دو درجن سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔ ۱۹۶۲ء سے انھوں نے کالم نگاری شروع کی۔۱۹۶۴ء میں انھوں نے پہلا ظریفانہ مضمون بہ عنوان ’ہم طرف دار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں‘ لکھا۔ ۱۹۶۸ء میں اُن کی پہلی کتاب’ تکلُّف بَرطرف‘ سامنے آئی۔’ قطعہ کلام ‘(۱۹۶۹ء)، ’قصّہ مختصر‘(۱۹۷۲ء)، ’آدمی نا مہ‘(۱۹۸۱ء)، ’بلا آخر‘(۱۹۸۲ء)، ’جاپان چلو ، جاپان چلو‘(۱۹۹۳ء)، ’سفرِ لخت لخت‘(۱۹۹۵ء) ، ’آخر کار‘(۱۹۹۷ء)، ’ہوئے ہم دوست جس کے‘(۱۹۹۹ء)، ’میرا کالم‘(۱۹۹۹ء) وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔

مجتبیٰ حسین ایک خالص ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگرمشہور صحافی اور ادیب تھے۔ دوسرے بڑے بھائی مشہور ظرافت نگاراور ترقی پسند ادیب ابراہیم جلیس تھے جو تقسیمِ مُلک کے بعد پاکستان چلے گئے۔ حیدر آباد کے اُدبا و شعرا اور صحافیوں کے بیچ مجتبیٰ حسین کی ادبی تربیت ہوئی۔اُن کی پیدایش سرٹی فکیٹ کے مطابق ۱۵؍ جولائی ۱۹۳۳ء کو گُل برگہ میں ہوئی مگر اُن کی حقیقی پیدایش ۱۹۳۶ء کی ہے۔ اس اعتبار سے وہ ۸۴؍ برس کی عمر میں رخصت ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں اپنی چچا زاد بہن ناصر ہ رئیس سے اُن کی شادی ہوئی۔اولاد میں دو بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں۔ ابتدائی زمانے میں تقریباًایک دہائی تک وہ سیاست اخبار سے منسلک رہے جہاں عابد علی خاں ایڈیٹر اور محبوب حسین جگر جوائنٹ ایڈیٹر ہوتے تھے۔ ری سرچ آفیسر کی حیثیت سے گجرال کمیٹی میں کچھ دنوں تک انھوں نے خدمات انجام دیں اور پھر این۔سی۔ای۔آر۔ٹی، نئی دہلی سے وابستہ ہو گئے جہاں گذشتہ ایک دہائی سے انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام کم کر دیا تھا۔ اس کے باوجود گاہے بہ گاہے اُن کی تحریریں منظرِ عام پر آتی رہیں۔ اس دوران اُن کے بکھرے مضامین اور پُرانی کتابوں کی بھی نئے سِرے سے اشاعت ہوتی رہی اور اُن کی نئی پُرانی تحریریں بہ ہر طور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

طنز و مزاح کے لیے پہلا غالب ایوارڈ مجتبیٰ حسین کو ۱۹۸۴ء میں دیا گیا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں حکومتِ ہند نے انھیں ’پَدم شری‘ کے اعزاز سے نوازا۔ ۲۰۱۷ء میں بزمِ صدف انٹرنیشنل نے انھیں اپنا بین الاقوامی ایوارڈ پیش کیا۔ ۲۰۱۹ء میں دلّی اردو اکادمی نے بہادر شاہ ظفر قومی ایوارڈ سے انھیں نوازا۔مختلف صوبائی اکادمیوں میں آندھرا پردیش ، کرناٹک، ہریانہ، مہاراشٹر، پنجاب اور دہلی کی جانب سے مختلف اوقات میں انھیں انعامات پیش کیے گئے ہیں۔ یہ عجب اتّفاق ہے کہ مجتبیٰ حسین کی خدمات کا ساہتیہ اکادمی نے اعتراف نہیں کیا۔ یعنی مجتبیٰ حسین کی کسی تصنیف کو اس لایق نہیں سمجھا گیا کہ اُسے گذشتہ تیس چالیس برسوں میں کسی بھی ایک سال کی تصانیف میں اُسے ممتاز تسلیم کیا جاتا۔ یہ بات سب کی نگاہ میں ہے کہ کیسے کیسے معمولی لکھنے والوں اور کم رُتبہ ادبا و شعرا کو ساہتیہ اکادمی کے اردو انعامات کے لایق سمجھا گیا مگر کسی اردو نقّاد کی ذاتی پرخاش اور ضد کی وجہ سے مجتبیٰ حسین کو ساہتیہ اکادمی نے لایقِ اعتنانہ سمجھا۔ اب یہ داغ ساہتیہ اکادمی کے ماتھے پر کلنک کے طَور پر ہمیشہ کے لیے لگ گیا ۔ یہ زخم مجتبیٰ حسین کے جگر میں لگا رہا اور اُن کے ساتھ ہی اُن کی قبرمیں بھی داخل ہو گیا۔
یہ موقع نہیں کہ مجتبیٰ حسین کی ادبی خدمات کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ حقیقتاً یہ آفتاب کو چراغ دکھانے کے موافق ہوگا۔ ہم نے اپنے اسکول کی زندگی سے ہی مجتبیٰ حسین کو پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ ۸۱-۱۹۸۰ء میں جب ہندی رسالے ’ساریکا‘ میں پہلی مرتبہ مجتبیٰ حسین کا سفر نامۂ جاپان قسطوں میں شایع ہونا شروع ہوا تب اُن پر خاص توجہ گئی۔ طالبِ علمانہ دَور ہی تھا مگر اس سفر نامے پر ہمارا تفصیلی تاثر اس ہندی رسالے میں شایع ہوا۔ اس کے بعد مجتبیٰ حسین کی کتابیں بازار سے خرید کر باضابطہ طور پر اپنی ذاتی لائبریری میں جمع کرنے لگا۔ رسائل میں شایع شدہ مضامین بھی توجہ سے دیکھنے لگا۔ ’جاپان چلو، جاپان چلو‘ کے بعد اُن کی کتاب ’آدمی نامہ‘ نے خصوصی توجہ کھینچی۔ چند خاکے مختلف رسائل میں بھی ہم نے تب تک پڑھ لیے تھے۔ گذشتہ چار دہائیوں میں مجتبیٰ حسین کی ایک ایک تحریر تلاش کرکے باضابطہ طور پر پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ دہلی کی تقریبات کے بعدمختلف مواقع سے حیدر آباد کی ادبی تقریبات میں مجتبیٰ حسین سے بار بار ملنے کا اتّفاق ہوا۔

مجتبیٰ حسین اور دیگر مزاح نگاروں سے محبت او رعقیدت پیدا ہونے میں ہمارے دوست ظفر کمالی کا بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے مجتبیٰ حسین کے نام آئے مشاہیرِ ادب کے ہزاروں خطوط کو دو ضخیم جِلدوں میں مرتّب کیا۔ بزمِ صدف انٹر نیشنل نے ۲۰۱۷ء کا اپنا انعام مجتبیٰ حسین کو ایک لاکھ روپے نقد اور مومنٹو اور شال کی شکل میں انھیں پیش کیا۔ پہلے پٹنہ میں تقسیمِ ایوارڈ کا پروگرام منعقد ہوا مگر موسم کی خرابی کی وجہ سے مجتبیٰ حسین حیدر آباد سے نکلنے کے باوجود پٹنہ نہیں پہنچ سکے۔ حالاں کہ اُن کی ادبی خدمات کے حوالے سے سے می نار منعقد ہوا اور اُن کے نمایندہ خاکوں کا مجموعہ ’دنیا عجب بازار ہے۔۔۔‘ عنوان سے بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے شایع ہوا۔ چار مہینے کے بعد حیدر آباد میں ایک خصوصی سے می نار منعقد کرکے بزمِ صدف انٹرنیشنل ارکان نے ایوارڈ کی رقم اور دوسرے ساز و سامان مجتبیٰ حسین کی خدمت میں پیش کیے۔ اس موقعے سے سے می نار میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ مجتبیٰ حسین : شخصیت اور کارنامے کے عنوان سے شایع ہوا جسے وہاں اُن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
مجتبیٰ حسین ادبی برادری میں حقیقتاً روایتِ قدیم کے نمایندہ تھے۔ بزرگوں کا ہر وصف اُن میں موجودتھا۔ خود بیمار یوں کی یلغار جھیل رہے ہیں مگر وہ آپ سے ہی آپ کی خیریت پوچھیں گے۔ کسی سے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کسی ذاتی پریشانی میں مبتلا ہیںتو وہ روزانہ آپ کا حال چال لیں گے اور دلاسہ دیں گے۔ میرے اخباری کالموں کی جب کتاب آئی تو انھوں نے حیرت کااظہار کرتے ہوئے اِن کالموں کو تواتر کے ساتھ روزنامہ سیاست ، حیدرآباد میں بھی شایع کرانے کے لیے مجھے انھوں نے تاکید کی ۔ انھوں نے خود اس کے ایڈیٹر زاہد علی خاں سے مجھے فون پر گفتگو کرائی اورہر اِتوار کو شایع کرانے کے لیے سنیچر کو بہ ہر صورت کالم بھیج دینے کے لیے مجھے راضی کیا۔ وقتِ مقرّرہ پر وہ خود مجھے یاد دلاتے کہ کالم ابھی بھیجا یا نہیں؟ اگلے روز کالم پڑھنے کے بعد اُن کا فون آتا اور ہزار ہزار دعائیں دیتے۔ گذشتہ دو برسوں میں ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ ان کی طرف سے یاد دہانی اور اشاعت کے بعد تعریف و توصیف کے کلمات کی تو مجھے عادت سی ہو گئی تھی۔

مجتبیٰ حسین کا تعلّق اُس نسل سے تھا جب ادیبوں اور شاعروں کی بڑی سماجی اہمیت تھی۔ ادب خدمت کا ایک ذریعہ تھا اور بے لوث رشتوں سے ہماری سماجی زندگی معطّر تھی۔ انھوں نے اپنی ظرافت میں روایت سے حاصل شدہ اخلاق اور مروّت کے ساتھ ایمان کو پہلی صف میں جگہ دی۔ کینہ ، حسد اور۳ بغض کا کہیں شائبہ تک آپ ملاحظہ نہیں کر سکتے۔نہ اس میں کہیں پھکّڑ پن ہے اور نہ کہیں ابتذال؛ یہ ظرافت کی سب سے اعلا سطح تھی جسے مجتبیٰ حسین نے اپنے بزرگ لکھنے والوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انجام تک پہنچایا۔مجتبیٰ حسین کی سماجی حیثیت کا اندازہ اُنھیں ہی ہو سکتا ہے جنھوں نے انھیں دلّی سے لے کر حیدر آباد تک بہ چشمِ خود دیکھا ہو۔ وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ اعلا، گورنر سے لے کر ایک عام اردو کے قاری تک سے اُن کا رشتہ تھا۔ سب سے انھوں نے یکساں اور بے لَوث رشتہ رکھاجس کی وجہ سے اپنی بڑھتی عمر اور صحّت کی مشکلات کے باوجود وہ اپنی ادبی اور سماجی حیثیت قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اب وہ نہیں رہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگلی بار جب حیدرآباد جائیں گے تو ہماری زبان کے قطب میٖنار کے بغیر سب کچھ سوٗنا سوٗنا ہوگا۔ واقعتا دکن ویران ہوا۔ اب اسی دل آویز شخصیت ہم دوسری کہاں سے لائیں گے۔

About the author

Taasir Newspaper