Taasir Urdu News Network | May 09, 2020
آر کے سنہا
ابھی حال ہی میں ملک کے دو ریئل اور ریل لائف کے ہیرو کے دنیا سے رخصت ہونے پر جس طرح کا رد عمل ملک میں دیکھنے کو ملا وہ سب کو حیران کرنے والا تھا۔ پہلے معروف اداکار اور پیکو، لنچ باکس، پان سنگھ تومر جیسی بہترین فلموں میں اپنی یادگار اداکاری سے ناظرین کو مسحور کرنے والے عرفان خان اور اس کے بعد راج کپور کے چھوٹے بیٹے رشی کپور کی موت پر ملک میں جس طرح کے غم کی لہر امڈی وہ یقینی طور پر بے مثال اور غیر متوقع مانی جائے گی ۔رشی کپور نے اپنے تقریبا نصف صدی طویل فلمی سفر میں بابی، ملک، لیلی-مجنوں جیسی درجنوں عمدہ فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ بیچ بیچ میں اپنے کچھ متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں بھی آ جاتے تھے۔ تو بھی یہ تو ماننا ہی ہوگا کہ وہ ایک مقبول ستارے تھے۔
پر ان دونوں کے روانہ ہونے کے فورا بعد کشمیر میں دہشت گردوں سے لوہا لیتے ہوئے فوج اور نیم فوجی دستوں کے کئی افسران اور جوان بھی شہید ہو گئے۔ شمالی کشمیر میں ہندواڑا علاقے کے ایک گاو ں میں یکم مئی کو ہوئےتصادم میں وہاں دہشت گردوں کے ساتھ ایک کرنل اور ایک میجر سمیت پانچ سیکورٹی اہلکار شہید ہو گئے۔ شہید سکیورٹی میں فوجی افسر کرنل آشوتوش شرما اور میجر انوج اور جموں و کشمیر پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر شکیل قاضی بھی شامل تھے۔مگر ذرا غور کریں کہ ملک کے خلاف جنگ کر رہے دہشت گردوں سے لڑنے والے جب میدان جنگ میں شہید ہوئے تو ملک میں ہلکے پھلکے رسمی رد عمل کا ہی اظہار کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے ان جوانوں کے شہید ہونے کی خبریں اپنے فیس بک وال پر ڈالیں۔ تب دنیا’نمن‘ اور’جے ہند‘ کرکے آگے بڑھ گئی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔
تو کیا ملا ملک کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے والوں کو صلہ؟ کیا یہ شہید صرف ’جے ہند“ اور ”نمن“ کی رسمی ادائیگی ہی کے قابل تھے؟ ملک کو سوچنا ہوگا اور اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔جو بے خوف نوجوان انتہائی مشکل حالات میں کشمیر میں لڑ رہے ہیں، ان کی قربانی کی ہم کتنی ناقدری کرتےہیں۔
میں عرفان خان اور رشی کپور کا فوج کے جانبازوں سے موازنہ نہیں کر رہا ہوں۔ مگراتنا تو کہنے کا دل کر ہی رہا ہے کہ ملک کے حقیقی اور مجازی دنیا کے ہیرو کو پہچاننا ہم نے ابھی تک نہیں سیکھا ہے۔ یہ ایک شرمناک صورتحال ہے۔ اگرچہ اس بات کا تو کچھ اطمینان ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اپنے جانباز ساتھیوں کرنل آشوتوش شرما اور میجر انوج سود سمیت پانچ سینئر اہلکاروں کی قربانی کا بدلہ لینے میں زیادہ وقت نہیں لگایا۔ سیکورٹی فورسز نے دو تصادم میں بدنام دہشت گردوں کو دھول میں ملا دیا۔ حزب المجاہدین کے بڑے کمانڈر ریاض نائکو کو بھی ڈھیر کر دیا گیا۔نائیکو کو پلوامہ میں اس کے گھر کے پاس ہی مارا گیا۔ نائیکو کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر 12 لاکھ کا انعام تھا۔ ریل لائف کے ہیرو پر لمبی لمبی بحثیں کر رہے کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ نائیکو کو بچانے کے لئے ملک کے کچھ دشمن جوانوں پر پتھراو بھی کر رہے تھے؟ عرفان خان اور رشی کپور کی تمام فلموں پر لکھنے بولنے والے کیوں نہیں لکھتے ان ملک کے دشمنوں پر بھی، جو فوج کے جوانوں پر پتھراو کر رہے تھے؟
چلئے ذرا اور پیچھے مڑ کر دیکھ لیتے ہیں۔کیا ملک کے عوام نے 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے سی آر پی ایف کے جوانوں کو کبھی یاد کیا؟ کیا کبھی ان کے خاندانوں کی فکر کی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پلوامہ حملے کے شہیدوں کے خاندانوں کو اب تک حکومت یا معاشرے سے واجب مدد نہیں ملی۔ وہ لوگ سرکاری مدد کا اب بھی انتظار کر رہے ہیں۔ جی ہاں، جب وہ واقعہ ہوا تھا تب آنسو بہانے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ سب نے متاثرہ خاندانوں کو بھرپور مدد کا یقین دلایا تھا۔ پر افسوس کہ ان میں سے کچھ وعدے کاغذوں میں ہی سمٹ کر رہ گئے ہیں۔
بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی۔ اب بھی ملک کو 2008 میں ممبئی حملے یاد ہیں۔ اس حملے کے سب سے بڑے گناہگار اجمل عامر قصاب کو اسسٹنٹ سب انسپکٹر تکارام نے زندہ پکڑا تھا۔ قصاب نے تکارام اومبلے کو گولی مار دی تھی تاکہ وہ اپنے آپ کو چھڑا لے۔ پر اس بہادر تکارام نے قصاب کو نہیں چھوڑا تھا۔ بہادری اور فرض کی ادائیگی کی اس طرح کی منفرد مثال ملنا مشکل ہے ۔اومبلے کو بعد از مرگ اشوک چکر دے کر بھلا دیا گیا۔ کیا اس رات کو بھلا دیا جانا چاہئے تھا؟
چونکہ بات شروع ہوئی ہے تو بات سے بات نکلے گی ہی۔ ہم تو اپنے حالیہ وقت میں ہوئی جنگوں کے ہیرو کی یاد کی بھی سخت توہین کرتے ہیں۔ کارگل کی جنگ کے ہیرو میں نوئیڈا کے وجینت تھاپر بھی تھے۔ اس جنگ میں فتح کے بعد ان کے نام پر نوئیڈا کی ایک مرکزی سڑک کا نام بھی رکھا گیا۔اس سڑک پر جدھر شہید وجینت تھاپر کا نام لکھا ہے، اس پر لوگ پوسٹر لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ان کے والد اور بھارتی فوج کے سابق کرنل تھاپر کہہ رہے تھے، ‘بھارت میں جنگ کے بعد شہیدوں کی قربانی اکثر بھلا دی جاتی ہے۔ صرف قریبی رشتہ دار اور دوست ہی انہیں یاد کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کو اپنے سچے ہیرو تلاش کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے معاشرے کو دیکھ لینا ہوگا۔موجودہ کورونا کے دور میں تمام کورونا کے جنگجووں کو ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر، نرس، پولیس اہلکار، سیکورٹی، صفائی ملازم، بینک ملازم، پانی اور بجلی محکمہ کے اہلکار وغیرہ شامل ہیں۔ کیا ہم صفائی اہلکاروں کو بھول سکتے ہیں؟ یہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہی محاذ پر تعینات ہیں۔ یہ کورونا کو شکست دینے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ دہلی قومی دارالحکومت علاقہ میں شہید بھگت سنگھ سیوا دل نام کے سماجی کارکن تنظیم کے جوجھارو کارکن دن رات ضرورت مندوں کو ماسک اور کھانا بانٹ رہے ہیں۔ شہید بھگت سنگھ سیوا دل کے سربراہ جتیندر شنٹی ایک فرشتہ کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ہزاروں یتیموں کا اپنے ہاتھوں سے آخری رسوم ادا بھی کروا چکے ہیں۔ اس طرح دیگر کئی سماجی خدمتگار ادارے اور ان سے وابستہ لوگ عوام کے درمیان میں سرگرم ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ملک بھر کے مختلف گرودواروں کے ذریعہ ملک بھر میں چلائے جا رہے خدمت خلق قابل ذکر اور قابل ستائش ہے ۔ انہیں کیوں معاشرہ ہیرو نہیں مانتا؟ کیا بے لوث جذبے مصیبت کے دور میں کسی کے ساتھ کھڑا ہونا کوئی عام بات مانی جائے۔ پر ہمارے یہاں تو فلمی دنیا کے ستاروں کو ہی خدا مان لیا جاتا ہے۔ اس طرح کی سوچ تو بدلنی ہوگی۔ فلمی ستاروں کا بھی احترام ہونا چاہئے ۔ لیکن، ملک کو اپنے حقیقی ہیرو کی شناخت تو کرنی ہی ہوگی۔
( مضمون نگارسینئر ایڈیٹر، کالم نگار اور سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں)