کسان پھر ہوں گے خوشحال.

Taasir Urdu News Network | Patna (Bihar) | May 17, 2020

آر ۔کے ۔ سنہا

ہمارے ملک میں ایک بہت ہی پرانی کہاوت مقبول ہے۔ “اتم کھیتی مدھیم بان، نکرشٹھ چاکری بھیکھ نیدان‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے بہتر کام یا  بہتر پیشہ تو کاشتکاری ہی ہے اور دوسرے درجے پر کاروبار ہے۔ کام کو تو کہا گیا ہے کہ وہ تو نکرشٹھ ہے جو بھیک مانگنے  کے مساوی ہے۔ لیکن، 70 سالوں میں بیرون ملک کی نقل کر کے ہمارے قائدین نے ملک کی پوزیشن کو تبدیل کر دی  ہے۔ اب تو نکرشٹھ کام کو ہی سب سے بہترین پیشہ مانا جا رہا ہے، اور اس کے ہی بعد کاروبار بھی ہے۔ سب سے نکرشٹھ آج ان کسانوں کا کام زراعت بن گیا ہے۔ یہ صورت حال جو ستر سالوں میں الٹی ہو گئی ہے اس کو واپس پٹری پر لانے کے لئے صرف “خود کفیل بھارت منصوبہ بندی” کے تحت وزیر اعظم مودی جی نے کسانوں، مویشی پروری اور ماہی پروروں کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ وزیر خزانہ مسز نرملا ستامر جی نے اپنی پریس کانفرنس میں کل اس کی تفصیلی  معلومات دی، جس سے کہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کسانوں کی قسمت ستر سال کے بعد اب پھرنے والی  ہے۔ کسانوں کے سامنے حالیہ برسوں میں جو سب سے بڑا مسئلہ دیکھنے کو آ رہا تھا، وہ دو طرح کا تھا۔ پہلا مسئلہ یہتھا کہ اندرا گاندھی کے زمانے میں ملک بھر میں زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹیوں کا قیام کیا گیا تھا۔ یہ مارکیٹ کمیٹیاں اچھی نیت ہی سے قائم کی گئی ہوں گی، لیکن، اب تو یہ بدعنوانی کا اڈہ بن کر رہگئی ہیں۔ اب یہ تمام کسانوں کے لئے قانون بنا دیا گیا تھا کہ وہ اپنی زرعی مصنوعات زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹیوں کے منڈی میں ہی فروخت کریں۔ یہاں  خریدنے – فروخت کرنے کاکام تو کم ہوتا تھا۔ لیکن، رسید کاٹنے کا کام اور رشوت خوری کا کام دھڑلے سے جاری تھا۔

تو اس طرح سے یہ زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹیاں بدعنوانی کا بڑا اڈہ بن گئی تھیں۔ کیونکہ، یہ ممکن ہے ہی نہیں کہ ایک علاقے میں یا ایک بلاک میں کسانوں کی جو بھی پیداوار ہیں وہ  تمام وہیں فروخت  ہو جائیں گی۔ دراصل یہ ایک غلط منصوبہ بندی تھی۔ لیکن، چلی آ رہی تھی گزشتہ پچاس برسوں سے۔ ہوتا یہ تھا کہ کسان رسید بھی کٹواتے تھے اور پھر وہاں کے حکام کو رشوت بھی دیتے تھے، تاکہ وہ اپنا مال اچھی قیمت پر جہاں فروخت کرسکتا ہے وہاں جاکر فروخت کرے۔ اس سے تو کسانوں کو مصنوعات فروخت کے پہلے ہی نقصان ہو جاتا تھا۔

رانچی سے جائیں ڈالٹین گنج کے روڈ پر تو مانڈر سے  چانہوں تک یا بلکہ کوڈو تک پچاس کلومیٹر روڈ پر صبح صبح سینکڑوں ٹرک لگے ملیں گے اور غریب قبائلی کسان خود بوریوں کو لاد کر سڑک کنارے لا کر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرتے ملیں گے۔ جو ٹماٹر آپ میٹرو شہروں میں 50 روپے کلو ملیگا، وہ بیچارے غریب چھوٹے کسان 25 پیسے یا 50 پیسے کلو کے  حساب سیبیچ کر ان ٹرک والوں کو دے گا جو کہ اسے براہ راست کلکتہ مارکیٹ میں لے جاکر مہنگی قیمت پرفروخت کریں گے۔ اب مارکیٹ کمیٹیوں سے رسید کٹوانے یا عہدیداروں کو رشوت دینا ان تاجروں کاکام رہ گیا ہے۔ ایک طرح سے کسان بھی خوش تھے کہ انہیں مارکیٹ کمیٹیوں تک جانا نہیں پڑا۔ وہ گھر سے سڑک کنارے آئے اور ان کا سامان یہاں تک کہ اگر اونے پونے  دام ہی سہی فروخت تو ہوگیا۔ لیکن، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک سبزی فرض  کر لیں مولی، ٹماٹر، گاجر، پالک یا بھنڈی یا ساگ ایک دو دن میں سڑنے والا کچھ بھی ہے اگر مارکیٹ میں زیادہ آ گیا، تو ان  کی قیمتیں اتنی کم ہو جاتی تھیںکہ کسان یہ سمجھتا تھا کہ اب اسے بیچے ہی نہیں۔ گھر واپس لے جانے میں دقت بھی ہوتی تھی۔ تو یہ غریب کسان سڑکوں پر ہی لاوارث چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ صبح 6 بجے سے 10 بجے تک تو ٹرکوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ سبزیوں کی خرید و فروخت  کی گہما گہمی رہتی تھی۔ دوپہر کے بعد  لاوارث  جانور سڑکوں کے کنارے کھڑے ہو کر مختلف قسم کی سبزیاں  کھاتے نظر آجاتے۔ یہ قابل رحم حالت ہو جاتی تھی غریب کسانوں کی دلالوں اور زراعت منڈیوں کے تشدد اور رشوت خوری کی وجہ سے۔

اسی طرح بہار کے سمستی پور میں تمباکو کی بڑی کاشت ہوتی ہے۔ پورے ملک کو تمباکو کی سپلائی یہاں سے ہوتی ہیں۔ یہ تو ممکن ہے ہی نہیں کہ تیار تمباکو کی کھپت سمستی پور میں ہی ہو جائے گی۔ یہاں پر بھی اسی قسم کا کرپشن ہے۔مکھانا ایک بہت اچھا پروڈکٹ ہے  شمالی بہار کا ہے۔ اس کی پیداوار بہار کے دربھنگہ اور مدھوبنی ضلع کے علاقوں میں ہوتیہے۔ لیکن، تمام مکھانا پیداواری کسان جانتے ہیں کہ زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹیوں میں جانے کا مطلب یہی ہے کہ اس  کی مناسب قیمت  جہاں نہیں۔ تو کوئی پٹنہ، کوئی  کولکاتہ تو کوئی دہلی وغیرہ مقامات میں بھیجنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پر وہ اس میں قابل بھی نہیں ہیں۔اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ پھر دلال یا تاجر کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے  کاشت کار ہیں۔ اب کسی نے 10 کوئنٹل تو کسی نے 20 کوئنٹل  اپنے تالاب میں  مکھانا کی پیداوار کی ہے۔ وہ 10 کوئنٹل یا 20 کوئنٹل مکھانا کرایہ کے ٹرک میں کہیں لے جا نہیں سکتے۔ وہ زرعی مارکیٹ کمیٹیوں میں جانے کی بجائے یہ کرتے ہیں کہ وہ دھڑلے سے اپنی  مصنوعات دلالوں کو دے دیتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر کالابازاری ہونے لگتی ہے۔  دلالوں کا  ناجائز تال میل زرعی مارکیٹ کمیٹیوں سے ہوتی ہے اور وہ رسید کٹوانے اور حکام کو رشوت دینے کا کام کرنے میں ماہر ہیں۔ اب یہ  مصنوعات کو ایک جگہ سے ملک میں کہیں بھی لے جاکر فروخت کرنے کی سہولت کسانوں کو ملی ہے وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ، غیر متوقع اور حیرت انگیز ہے۔ اس سے کسانوں کو اپنی مصنوعات کی لاگت مل پائے گی اور مناسب منافع بھی ہوگا۔

دوسرا بڑا محکمہ جو کسانوں میں خوف پیدا کرتا تھا وہ تھا سپلائی ڈپارٹمنٹ۔ ضروری مصنوعات ایکٹ 1955 کے تحت کسانوں کو کچھ اناج رکھنے میں تو چھوٹ تھی، لیکن، کچھ اناج میں چھوٹ نہیں تھی۔ تیل، تلہن، دال، پیاز اور آلو تو وہ رکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تو بڑی زیادتی تھی۔ اب کسان چاول گندم تو رکھے گا اور باقی چیزوں کو رکھ کرجب اچھی مارکیٹ  قیمتملے اس وقت وہ فروخت ہی نہیں کرسکتا تھا۔ یعنی فوری طور پر  کاشت کرو اور فوری طور پر منڈی میں جا کر فروخت کردو اس سے کسانوں کو بہت پریشانی ہوتی تھی۔ انہیں لگتا تھا کہ تلہن، دال کی پیداوار سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ، اسی ایکٹ کے انسپکٹر کبھی بھی آکر پریشان کر سکتا ہے۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کسانوں کی جتنی بھی مصنوعات ہیں چاہے مکئی، گندم، چاول یا کسی بھی قسم کی دال، تلہن ہو اس ایکٹ سے باہر رہے گا۔ یہ ایک بہت بڑی سہولت کسانوں کو ملی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کے اوپر سپلائی انسپکٹروں کے ظلم ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ کئی بار مجھے تو حیرت یہ ہوتی ہے کہ کسانوں کے اس ملک میں کسانوں کے بارے میں، اس کے مفاد میں سوچنے میں اتنی دیر کیوں لگ گئی۔ 70 سال کیوں لگ گئے۔ لیکن،  دیر آید درست آید۔ یہی سمجھا جائے کہ یہ سہرا مودی جی کو ہی ملنا تھا، اسی لیے ایسا ہوا۔

حکومت نے کل جو  اعلانات کئے اس میں اس بات کو تسلیم کیا کہ کسانوں کو اس لاگت کی صحیح قیمت نہیں مل رہیہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فصل کے بعد فصل کی پروسیسنگ، اس کی حفاظت، اس کا تحفظ اور کولڈ چین مینجمنٹ یعنی چھوٹے چھوٹے کولڈاسٹوریج کے نہ ہونے کی  وجہ سے کسانوں کو صحیح منافع نہیں مل رہا ہے۔ اسی کے لئے بنیادی طور پر یہ ایک لاکھ کروڑ کے پیکیج کاحکومت نے اعلان کیا تاکہ خود  کفیل بھارت کی مہم کی طرف تیزی سے آگے بڑھا جا سکے۔

ایک لاکھ کروڑ روپے کا پیکیج جو حکومت نے اعلان کیا اس سے پورے ملک میں زراعت سے متعلق ایسی بنیادی سہولیات تیار کی جائیںگی جس سے زرعی پیداواری کمیٹیوں کے ذریعے، کسانوں کی پیداوار ی یونٹوں کے ذریعے اور زرعی شعبے میں کام کر رہے  صنعت کاروں کے ذریعے سے زرعی  بنیادی ڈھانچہ جاتی سہولتوںکی ترقی کرکے  کاشت کاروں کو زیادہ سے  زیاادہخوشحال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ کوشش رہے گی کہ جہاں پیداوار ہوتی  ہو اس کے نزدیکی علاقے میں ہی یہ سہولیات بنائی جائیں، تاکہ پورے  ملککے کسانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں ہی اس کا فوری فائدہ مل سکے۔

وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے ملک کے نام اپنے خطاب میں بھی یہ کہا تھا کہ ہمیں “لوکل” کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی اور “لوکل” کے لئے “ووکل” ہونا ہوگا، یعنی لوکل مصنوعات کی حمایت میں آواز اٹھانی ہوگی۔ اور جب “لوکل” کے لئے مکمل سماج “ووکل” ہوگا تو اسی سے ہمارے “لوکل” کو “گلوبل” بنانے کا راستہ کھل جائے گا۔ کیونکہ، آج جتنے بھی بڑے بڑے بین الاقوامی برانڈ ہیں، وہ سب کے سب بھی کبھی نہ کبھی ایک چھوٹی سی لوکل  کمپنی  سے ہی شروعات  کی تھی۔ لیکن، وہاں کی حکومتوں نے اور وہاں کے سماج نے ان کی حمایت کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں گلوبل بنا دیا۔ تو اس کام کے لئے 10 ہزار کروڑ کی رقم ان کے لیے ہو گی جو چھوٹے کاروباری ہیں، جن میں مائیکرو فوڈ انٹرپرائز یاچھوٹے غذائی صنعت کارکہا جاتا ہے۔ کوئی مکھانا تیار کرتا ہے، تو کوئی ستو بنا رہا ہے، کوئی بیسن تیار کر رہا ہے، کوئی مصالحہ کوٹ رہا ہے، ایسے تمام  صنعت کاروں کے لئے 10 ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے ہزاروں لوکل  صعتیںکھڑی ہوں گی۔ حکومت کی منصوبہ بندی کے مطابق دو لاکھ مائیکرو فوڈ پروسیسنگ یونٹ یعنی اشیائے خوردنی مصنوعات  کے صنعت کار اس سے مستفید ہوں گے اور 2 لاکھ  صعنت کاروں کو جب اپنے کاروبار کی توسیع کے لئے 10 ہزار کروڑ روپے کا قرض جو سستی سود کی شرح پر ملیگی وہ بھی بغیر ضمانت کے، تو یقینا ہر ایک  صعنت کارپانچ سات دس لوگوں کو اپنے یہاں روزگار دے گا اور جس سے لاکھوں کی تعداد میں مقامی روزگار پیدا بھی ہوں گے جس سے مزدوروں  کی نقل مکانی  بھی رکے گی یا کمہوگی۔

حکومت  کے  اس منصوبہ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبہ  کے لئے الگ الگ ریاستوں کو الگ الگ مصنوعات کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے گی جیسا کہ اتر  پردیش میں آم، بہار میں لیچی اور مکھانا، جموں و کشمیر میں زعفران اور شمال مشرقی ریاستوں میں بانسوں   کی نئی کونپلوں سے تیار ہونے  والی متعدد اقسام  کی مصنوعات، تو اآندھر پردیش میں مرچ۔ اس طرح کے مختلف ریاستوں کے لئے مختلف مصنوعات کا انتخاب کریں اور وہاں پر ان  کی حوصلہ افزائی اس منصوبہ کے تحت  کی جائے گی۔ ایک اور بڑا اعلان جو کیاگیا ہے وہ 20 ہزار کروڑ روپے کی منصوبہ بندی ہے جو کہ ماہی گیروں کے لئے ہے۔ مچھلی  پروری کے لئے 20 ہزار کروڑ روپے تاکہ سمندر کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کو اس سے بہت بڑا فائدہ ہو گا۔ وہ طرح طرح کے چھوٹی بڑی  کشتیاں خریدیں  گے جس پر حکومت 11 ہزار کروڑ خرچ کرے گی۔ اور چھوٹے موٹے جزائر کو مچھلی کی پیداوار جزائر کے طور پر  متعارف کیا جائے گا۔ 11 ہزار کروڑ روپے اس میں خرچ ہوں گے اور 9 ہزار کروڑ روپیہ کے لئے فیشنگ ہارورڈ یعنی کہ ماہی گیروں کے لئے چھوٹے چھوٹے بندر گاہوں کو بنانے میں خرچ ہوں گے جہاں سے وہ جا سکیں گے مچھلی کا شکار کرنے کے لئے۔ ان مچھلیوں کے لئے کولڈاسٹوریج کا انتظام بھی  ماہی گیر بندرگاہ پر ہی ہوگی۔ اس سے حکومت کو امید ہے کہ ملک میں ستر لاکھ ٹن مچھلی کی پیداوار اگلے پانچ سالوں میں ہونا ممکن ہو پائے گی تا کہ اس سے بہت بڑا برآمد مارکیٹ کھل جائے گا۔ مچھلی کی پیداوار سے تقریبا پچپن لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ ابھی جو مچھلی کی برآمد کا مارکیٹ ایک لاکھ کروڑ کا ہے وہ براہ راست دوگنا ہوکر دو لاکھ کروڑ کا فی سال ہو جائے گا۔

ایک بہت بڑا اعلان کیا گیا کہ  مویشی پروروں کے لئے بھی تقریبا 13 ہزار 3 سو 43 کروڑ روپے کی منصوبہ بندی ہے جس سے  صد فیصد ویکسین بھینسوں، گایوں، بھیڑوں، بکریوں، سووروں کے لئے کرنے کا بندوبست کیا جائے گا جس کی تعداد آج کے دن ملک بھر میں تقریبا 53 کروڑاندازہ  لگایا گیا ہے۔ ان جانوروں میں پاؤں سے لے کر منہ تک کے مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں جس سے وہ متاثرہ ہو کر مر جاتے ہیں۔ ان 53 کروڑ جانوروں میں اب تک صرف ڈیڑھ کروڑ جانوروں کو ہی ویکسین  دی جاتی ہے۔ کیونکہ  مویشی پرور کسان غریب ہیں جو ویکسین میں خرچ نہیں کر سکتے ہیں اب حکومت اس  کا خرچ اٹھائے گی اور تمام ویکسین حکومت کی طرف سے  مہیاکرایا جائے گا جس میں بہت بڑی راحت ہے مویشی پرور کسانوں کو ملے گی۔

ایک بڑا اعلان جو کل ہوا وہ 15 ہزار کروڑ روپے کے غلہ ا نفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ  فنڈ کے طور پر  کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ متعدد ایسے علاقیہیں جہاں بھی دودھ کی پیداوار کے بہت  امکانات ہیں اور جہاں دودھ کے علاقے میںپرائیویٹ صنعت کار بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن، ایسے علاقوں میں جب تک کہ دودھ پروڈکٹ کی پروسیسنگ اور اس کی قیمت میں ویلیو ایڈیسن اور کیٹل فیڈ کے لئے انفراسٹرکچر تیار نہیں کئے جائیں گے تو یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اسی کے لئے یہ 15 ہزار کروڑ روپے کا مویشی پروری انفرا اسٹرکچر کی تعمیر  کے منصوبے کا یہ اعلان کیا گیا ہے۔

بھارت میں ایسے تو  ادویات کے پودوں کی کثرت ہے، جو کہ طبی  نقطہ نظر سے کافی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے نیشنل پلانٹس بورڈ کو دس ملین ہیکٹر زمین میں جو نامیاتی  ادویات کے  پودوں کو تیار کرنے کے لئے کہا گیا ہے جس پر دو برسوں میں چار ہزار کروڑ روپے خرچ کیا جائے گا اس سے کسانوں کو تقریبا پانچ ہزار کروڑ روپے کی اضافی آمدنی ہوگی  اور نیشنل میڈیکل پلانٹ بورڈ کو گنگا کے ساحلی علاقوں میں بھی ان نامیاتی دواؤں کے  پودوں  کی کاشت کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔

کل کے اعلان میں  شہد کی مکھیوں  کی پیداوار کے فروغ کے لئے پانچ سو کروڑ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔مدھو مکھی پالن ایک ایسا کام ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے کسان بھی کرسکتے ہیں۔خواتین بھی کر سکتی ہیں اور مدھو مکھی پالن سے اس علاقے کے دو سے تین کلو میٹر کے میدان میں جو پودوں میں زیرگی  کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے اس کی  وجہ سے 15 سے 25 فیصد تک فصل کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے ایسی منصوبہ بندی ہے کہ  مدھو مکھی پالن کی ترقی کامرکز جگہ جگہ  بن جائے ۔ شہد  کی جمع کاری، اس  کی پروسیسنگ، اس کی صحیح مارکیٹنگ اور طرح طرح کے اقدامات سے اس میں ویلیو ایڈیشن یعنی قیمت میں اضافہ جس سے کسانوں کو فائدہ ہو سکے۔ اس سے بھی لاکھوں لوگوں کو روزگار ملنے کا امکان ہے۔

پھل اور سبزیوں کی پیداوار کرنے والے کسانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی پیداوار جب تیار ہوتی تو اسے ایک دن میں ہی مارکیٹ میں جانا ضروری ہوتا تھا یا اسے کولڈاسٹوریج میں محفوظ کیا جانا ضروری ہونا چاہئے،یہ نہیں ہو پاتا تھا۔ چاہے وہ پپیتا ہو، تربوز، خربوزہ ہو کوئی بھی ایسی سبزی ہو جو سڑ گل سکتی تھی، اس کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ حکومت کیبھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں تھی۔ ایک منصوبہ ٹاپ کا تھا یعنی ٹومیٹو، پیاز اور پوٹیٹو، یعنی محض پیاز، ٹماٹر اور آلو کے لئے منصوبہ  تھا۔ لیکن، اب ٹاپ  سے ٹوٹل کا منصوبہ  تیار ہواہے، یعنی کہ ہر قسم کے اس طرح  کی پیداوار جو سڑگل  سکتے ہیں اس کے تحفظ کے لئے پانچ سو کروڑ کا منصوبہ حکومت نیبنایا ہے۔ یہ ایک قابل ستائش قدم ہے۔ اس سے کسانوں کو ایسی فصلوں کی پیداوار میں حوصلہ افزائی ہوگی جنہیں کراپ  یا نقدی فصل کہا جاتا ہے۔ ایسی فصلوں کی کاشت سے کسان  بچتے  تھے کہ اگر مارکیٹ نہیں ملا وقت سے، تو اس کا کیا ہوگا۔ لیکن اب ٹاپ ٹو  ٹوٹل منصوبہ سے پانچ سو کروڑ روپے خرچ کرکے حکومت جگہ جگہ کولڈاسٹوریج بنوائے گی یا بنوانے والے کی حوصلہ افزائی کرے گی جس سے اس کا فائدہ کسانوں کو ہی ملے گا۔

اس طرح کے متفرق منصوبوں کے ذریعے ایک لاکھ کروڑ روپے کسانوں کے مفاد میں حکومت نے اعلان کئے ہیں۔ اب تو مختلف وزارت اس کے وسیع منصوبے  بنائے گی۔ ریزرو بینک بھی مختلف قرض کے سلسلے میں  گائڈ لائن تیار کرے گا، تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کس منصوبہ  کے تحت بینکوں کو کتنے قرض کی رقم دینی ہے۔ اس کی سود کی شرح  کیا ہوگی ۔ قرض وصولی کی مدت کیا ہوگی۔ کتنے دنوں میں اس کی وصولی ہوگی۔ یہ  تمام اسکیمیں اب بن کرسامنے  آئے گی۔ مودی حکومت کی یہ پہل خوش آئند ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ “اتم کھیتی مدھیم وان ” کی سمت میں آگے  بڑھیں گے۔

( مضمون نگار سینئر ایڈیٹر، کالم نگار اور سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں)