عید الفطر: یوم ِانعام بھی ، یوم ِاحتساب بھی!

 Taasir Urdu News Network | Delhi | May 24, 2020

مولانامحمد اعجاز عرفی قاسمی
قومی صدر،آل انڈیا تنظیم علماء حق،دہلی

دنیا کے دیگر مذاہب وادیان کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو تہوار کی شکل میں خوشی اور مسرت کے اظہار کے مواقع مرحمت فرمائے ہیں۔ جن کے محض تصور اور خیال سے ہی ہماری رگوں میں اہتزا ز وانبساط کی برقی لہر دوڑجاتی ہے۔ یہودی، عیسائی، پارسی اور ہندو ساری اقوام عالم سال کے مختلف دنو ںمیں کسی خاص تاریخی واقعے یا شخصی یادگارکے تناظر میں مذہبی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس دن کے اہتمام میں حسب حیثیت فاخرانہ اور عمدہ لباس زیب تن کر تے ہیں، ملاقاتیوں کی ضیافت طبع کے لیے ،پر تکلف اورلذیذ پکوان تیارکرتے ہیں،شیرینی کھلاکر اور ایک دوسرے سے گلے مل کر تبریک و تہنیت پر مبنی جذبات کا اظہار کر تے ہیں۔ پارسیوں نے نوروز اور مہرجان کو اپنی خوشی کے موقع کے لیے منتخب کیاہے، عیسائی ۲۵؍ دسمبر کو کرسمس ڈے مناکر اپنے مسرت آمیز قلبی جذبات میں ایک دوسرے کو شریک کر تے ہیں، یہودیوں نے اس دن کواپنے لیے یوم مسرت مقرر کیا ہے، جس دن انھیں حضرت موسیؑ کی معیت میں فرعون کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی، ہمارے برادران وطن کے ہولی، دیوالی،جنم اشٹمی، چھٹھ اوردرگا پوجا وغیرہ جیسے سینکڑوں تہوار اور دسیوں مذہبی میلے ہیں، لیکن اسلامی تہوار اور دیگر ادیان و مذاہب کے تہواروں میں طریقئہ کار اور مسرت و شادمانی کے اظہار کے حوالے سے اگر تقابل کیا جائے ، تو ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ دوسرے مذاہب کے تہواروں کی طرح اسلامی تہواروں میں شور شرابے، لہوولعب اور ہنگامہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں میلوں ٹھیلوں جیسی بے اعتدالی، ہاہا کار اور بد نظمی بھی نظر نہیں آتی اور غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکات، شراب، جوا، لاٹری اور رقص وسرود کی اجازت کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اسلام نے اپنے پیروکاروں کو صرف دو تہوار (عید الفطر اور عید قرباں) دیے ہیں،اور یہ دونوں تہوار بھی دیگر اقوام و ادیان کے تہواروں کی طرح کسی خاص تاریخی یا شخصی واقعے کا پس منظر نہیں رکھتے، بلکہ مسلمانو ںکے یہ دونوں تہوار ایک خاص اسلامی فریضے کی تکمیل کے بعد بطور انعام مرحمت فرمائے گئے ہیں۔ عید الفطرر وزہ جیسے مقدس عمل کی کامیاب تکمیل کا انعام ہے، تو عید قرباں حج جیسے متبرک عالمی فریضے کی تکمیل پر فرحت و شادمانی کا اظہاریہ۔ اسلام نے نہ تو آپ ﷺ کی ولادت با سعادت کے خاص واقعے پر اپنے تہواروں کی بنیاد رکھی، نہ ہجرت کے تاریخی اور یادگار واقعہ کو یوم عید مقرر کیا، نہ ہی اس نے ماضی کی عظیم اسلامی جنگوں: بدر و احد یا غزوئہ احزاب یا فتح مکہ کے مسرت بخش او رفرحت انگیز موقع کو مذہبی تقریب کے لیے مختص کیا، بلکہ ان تہواروںکو بندوں کے ذاتی افعال کا نتیجہ اور بدلہ قرار دے کر اسلامی احکامات کے جلو میںپوشیدہ بہت سی حکمتوں اورمصلحتوں کی طرف اشارہ کر نا بھی مقصود ہے۔ خالق کائنات اسلامی تہواروں کو انسانوں کے ذاتی اعمال کی بنیاد بناکر در اصل یہ پیغام ذہن نشیں کرانا چاہتا ہے کہ جو واقعات ماضی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، وہ بنی آدم کے لیے مشعل راہ ضرور ہیں، لیکن ایمان والو! کان کھول کر سن لوکہ ما ضی کے یہ شان داراور زریں واقعات تمھارے لیے باعث صد افتخار ہو سکتے ہیں، لیکن تمھیں اپنے آباؤ اجداد کے ان روشن کارناموں پر اکتفا کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، بلکہ خوشی کے اظہار کے لیے خوداپنے اعمال کو بنیاد بنانا چاہیے کہ ان سے ملنے والی مسرت اور شادمانی ہی پائے دار اور دیر پا ثابت ہو سکتی ہے۔ روز آخرت تمھارے ساتھ تمھارے آباؤو اجداد اور پیش رو سلف صالحین کے کارناموں کی بنیا دپر معاملہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ تم سے صرف تمھارے اعمال کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اسی کی بنیاد پر جزا یا سزا کے مستحق ٹھہروگے۔ اگر تمھارا ذاتی عمل اچھا ہے، تو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے مسرت و شادمانی کے اظہار میں بخل سے کام نہ لو اور اگر تمھارا ذاتی عمل اس قابل نہیں تو پھر کس بات کی خوشی اور کیسی عید؟ ۔

دوسرے مذاہب میں کسی مذہبی تقریب اور تہوار کا تصور رنگ رلیاں منانے، اپنی مخصوص قومیت کے اظہار یہاں تک کہ ناجائز اور غیر اخلاقی افعال کے ارتکاب، ناچنے گانے، رقص وسروداور شراب وکباب کی محفلیں آراستہ کرنے سے عبارت ہوتے ہیں، جب کہ اسلامی تہواررنگ رلیاں منانے اور ناچنے گانے نیز غیر اخلاقی حرکات کے ارتکاب سے عبارت نہیں ہیں، بلکہ ان تہواروں کو بھی طاعت و عبادت کے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے، اور ان پر تقوی وطہارت کی پاکیزہ چادر ڈال دی گئی ہے، تا کہ ایک صاحب ایمان عید اور تہوار کی خوشی میں اتنا بد مست اور آپے سے باہرنہ ہوجائے کہ اس کو اسلامی حدودوقیود اور شرعی ضابطوں کابھی پاس ولحاظ نہ رہے۔ بے شک عید مسرت وشادمانی کے جذبات اور فرحت و انبساط کے تصورات سے عبارت ہے، لیکن اسلامی دائروں میں رہتے ہوئے۔عمدہ ملبوسات زیب تن کرنے، سج دھج کر عید گاہ جانے،اپنے جسموں پر عطروخوشبو ملنے، شیریں چیزیں کھانے اورمحض خوشیوں کے اظہار کا نام ہی عید نہیں ہے، بلکہ عید کا دن در اصل اجتماعی عبادت کا دن ہے، خود احتسابی کا دن ہے، اپنے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرنے اور اس کا تقرب حاصل کر نے کا دن ہے، اطاعت و شکر گزاری کا دن ہے۔ غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں، بے کسوں اور یتیموںکی طرف دست تعاون بڑھانے کا دن ہے،خدا کی ربوبیت و حقانیت کے بر ملا اعلان کا دن ہے۔عید انعام کا دن بھی ہے، کیوں کہ خدا تبارک وتعالی اس دن اپنے روزے دار بندوں کی عام مغفرت کا اعلان کرتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کی عبودیت اور اس کی اطاعت شعاری پر فخر فرماتا ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب خدا کے بندے عید گاہ میں دوگانے کی ادائیگی کے لیے اللہ اکبر کی صدا لگاتے ہوئے راستوں پر رواں ہوتے ہیں، تو اللہ تعالی انھی فرشتوں سے جنھوں نے انسانوں کی تخلیق پر اعتراض کیا تھا ، ازراہ فخر یہ سوال کر تے ہیں کہ بتاؤ جو مزدور اپنا مفوضہ کام بخوبی پورا کرلے، اس کو کیا صلہ دیا جاتا ہے؟ فرشتے بیک آواز کہتے ہیں کہ ایسے مزدورکو بلاکم و کاست پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالی جوابا عرض کرتا ہے کہ میرے ان بندوں نے رمضان کے مہینے میں میری طرف سے سپرد کیے گئے ایک کام کو بحسن وخوبی انجام دیا ہے۔ انھوں نے صرف میرے حکم کی تعمیل میں کھانے پینے کو ترک کر دیا، اور جائزجنسی خواہشات سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ان کے گھروں میں قسم قسم کے لذیذ اور نفیس ترین ماکولات ومشروبات کا انبار لگا ہوا تھا، مگر میرا خوف ان کے قلوب کی گہرائیوں میں پیوست تھا، اس لیے انھوں نے بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود ان کو ہاتھ نہ لگا یا۔ اب یہ میری عظمت و بڑائی اور وحدت وکبریائی کا اپنی زبانوں سے اعلان کر تے ہوئے اپنی مغفرت کی دعائیں مانگنے کے لیے عید گاہ کی طرف جا رہے ہیں۔ میں اپنی عزت و جلال اور علو شان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی برائیوں پر قلم پھیر دیا اور ان سب کی مغفرت کر دی۔

لیکن کیا مغفرت اور بخشش کا یہ الوہی پروانہ ہر کسی کے ہاتھ آجاتا ہے، خواہ اس نے روزوں کی ساری شرائط کی تکمیل نہ کی ہو۔مزدور اگر مفوضہ کام کی ادائیگی میں خیانت اور لا پروائی سے کام لے، تو بھلا اس کو پوری اجرت کیسے اور کیوں کر مل سکتی ہے؟ہم نے روزے ضرور رکھے، مگر غیبت ، چغل خوری ، حسد، بغض ،نفرت وعداوت ، بہتان تراشی اور دروغ گوئی و بد کلامی جیسے ایمان سوز اعمال کا ارتکاب کر کے روزے کی امانت کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ہم نے تراویح پڑھی، شب بیداری کی مشقت بھی برداشت کی، نوافل کا اہتمام ضرور کیا، تلاوت قرآن کی ظاہری حلاوت سے بھی ہمارے کام و دہن سر شار رہے، نوافل اور تہجد بھی اداکی، ذکر واذکار کی زبانی رٹ بھی لگائی، لیکن کیا ہمارے ان اعمال میں اتنا دم ہے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں باریابی کا شرف حاصل کر سکیں۔کیا ہماری تلاوتوں میں خشوع و خضوع اور اور خلوص و للہیت کی وہ غیر مرئی توانائی تھی جو قرآن کریم کو روز قیامت ہماری سفارش کے عمل پر آمادہ کر سکے۔کیا ہماری تسبیح وتہلیل میں خوف وخشیت کی وہ روشنی تھی، جس نے واقعی ہمارے دل کے اندھیروں کو کافور کر دیا ہو۔ کیا رمضان کی مقررہ عبادت وریاضت سے ہماری رگوں میں ورع وتقوی ، ایمان و یقین کے خون نے گردش کی۔ کیامہینہ بھر رہنے والے رحمت ومغفرت اور جہنم سے نجات کے اس موسم میں ، ہم اپنے دل کی دنیا بدلنے اور اپنے باطن کی گندگیوں ، اور قلوب پر بیٹھے گناہ کے داغ دھبوں کی صفائی میں کامیاب ہو سکے۔ اگر نہیں، تو پھر ہم کس طرح اور کس منہ سے خدائی انعام کے واجبی مستحق ہو سکتے ہیں۔ دامن دل میں جھانکیں، دل کی کھیتی تو اب تک سوکھی پڑی ہے، اس لیے استحقاق کیا چیز ہمارے اندر تو شائبئہ اہلیت بھی نہیں۔ خدا کے مقرب اور برگزیدہ بندوں کے طفیل ہم گنہ گاروں اور سیہ کاروں کی مغفرت کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہو، اس کا امکان ضرور ہے، کیوں کہ جب رحمت اور مغفرت کی برسات ہوتی ہے، تو بدکار اور بد اعمال و بد کردار قسم کے لوگ بھی معاف کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ظاہری اعمال تو ہرگز ایسے نہیں جن کی بنیادپر ہم خالق کائنات کی بارگاہ میں اپنی مغفرت کی امید باندھ سکیں۔ آپﷺ نے بجا فرمایا ہے کہ’’ عید تو در اصل اس شخص کی ہے، جس کا دل خوف خدا سے لبریز رہااور طاعت وعبادت میں لگا رہا، نہ کہ اس شخص کی جس نے نئے لباس پہن لیے ہوں۔‘‘ اس لیے عید کادن انعام کا دن ہونے کے ساتھ احتساب اور اپنے نامئہ اعمال کی طرف جھانکنے کا بھی دن ہے تا کہ اگر عمر سلامت رہے، تو رحمت و مغفرت اور جہنم سے نجات کے اگلے موسم میں عبادت و ریاضت کی سوغات سے اپنے خالی دامن کو بھر سکیں۔ اور اپنے قلب اور باطن پر عصیان و سرکشی کے بدبودار داغ اور گندے دھبوں کو دور کر سکیں۔

آج کے دن ہم مسلمان عالم عید گاہوں، مسجدوں اور کھلے میدانوں میں خدا کی بارگاہ میں اپنی مغفرت کی دعائیں مانگنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ شاہ وگدا، بچے بوڑھے، امیروغریب، مردوعورت سبھی رنگ برنگے اور زرق برق لباس میں عیدگاہ میں صف بستہ بیٹھے ہیں۔ چشم دل وا کیجیے اور یہ تصور کیجیے کہ عیدگاہ خدائے ذوالجلال کی جلوہ گاہ خاص بنا ہوا ہے، مغفرت کی باد بہاری چل رہی ہے، اور ہر طرف اس کے لطف وکرم کی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ خدا ئے غفور رحیم نے مغفرت اور قبولیت کا وعدہ بھی کر رکھا ہے، اس لیے اپنی ذات،اپنے والدین ، عزیز واقارب کی صحت و تن درستی اوردین ودنیا کی کامیابی کی دعا کیجیے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیے، دست دعا دراز کیجیے اور اپنے پیارے وطن ہندستان کی سلامتی اوراس کی ہمہ جہت خوش حالی کے ساتھ عالم اسلام ہی نہیں، بلکہ پورے عالم میں امن وسلامتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بقائے باہم اور صلح وآشتی کی دعاء مانگیے۔ مسجد اقصی ، بیت المقدس اور بابری مسجد کی بازیابی کے لیے سب سے بڑے حاکم وعادل کے حضور آنسووں کا نذرانہ پیش کیجیے۔ مساجد، مدارس، خانقاہوں اور مذہبی اداروں کے تحفظ کی درخواست مسجود حقیقی کے سامنے رکھیے کہ اس نے آج ہر طرف مغفرت اور مقبولیت کی عام منادی کر رکھی ہے۔ ممکن ہوتو اپنے مردہ بھائیوں کی روحوں سے ملاقات اور ایصال ثواب کرنے کے لیے قبرستانوں کا بھی رخ کریںاور نہ صرف ان کے اخروی راحت و آرام کے لیے دعائیں کریں، بلکہ آخرت ، حشرونشراور قبر کی تنہائیوں کی یاد اپنے دلوںمیں بھی تازہ کر لیں۔ اپنے ایمان واعمال کے ناکافی سرمایے کی طرف نظر کرتے ہوئے ہم ان انعامات اور بخششوں کے مستحق تو نہیں ہیں، لیکن اگر اس خالق حقیقی کی نظر کرم ہوجائے تو ہماری بگڑی تقدیر سنور کر سکتی ہے ، اس لیے مانگنے میں کسی بخل اور کوتاہی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کو عید کو صحیح اسلامی روح اور پاکیزہ جذبات کے ساتھ منانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کوہماری اخروی زندگی کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بنائے۔آمین!