مزدوروں کی ہجرت.

تاثیر اردو نیوز نیٹورک : May 18, 2020

ایڈیٹر کے قلم سے۔

 ملک کے اہم صنعتی شہروں سے کثیر تعداد میں مزدوروں کی ہجرت سے ایک طرف متعلقہ ریاستوں کی مقامی انتظامیہ کو مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں مشقت کرنی پڑ رہی ہے، وہیں دوسری طرف ایم ایس ایم ای کے لیے اعلان کیے گئے راحت پیکیج سے چھوٹے کاروباریوں کو کاروبار پٹری پر لوٹنے کی جو امید بندھی تھی، وہ دھومل ہوتی نظر آ رہی ہے۔

راجدھانی دہلی اور آس پاس کے علاقے سے کثیر تعداد میں مزدور گھر واپس ہو چکے ہیں اور جو کہیں پر رکے ہوئے ہیں وہ بھی گھر واپس جانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کاروباریوں کا کہنا ہے کہ مزدوروں اور کاریگروں کے بغیر فیکٹریاں چل نہیں پائیں گی، اس لیے راحت پیکیج ملنے کے باوجود جلد کاروبار پٹری پر لوٹنے کی امید کم ہے۔  مرکزی حکومت نے اسپیشل اکونومک زون اور صنعتی سیکٹر اسپیشل میں شرائط کے ساتھ فیکٹریاں کھولنے کی اجازت گزشتہ مہینے دے دی تھی، لیکن کھانے پینے کی چیزیں، دوائیاں سمیت ضروری سامان کا پروڈکشن کرنے والی فیکٹریاں جن کو لاک ڈاؤن کے شروع سے ہی چھوٹ ملی ہوئی ہے، ان کے سوا دیگر فیکٹریوں میں زیادہ تر کام اب بند ہیں۔ کاروباریوں نے بتایا کہ فیکٹریاں نہیں کھلنے کی اہم وجہ مزدوروں کا مسئلہ ہے۔

دہلی کے مایاپوری انڈسٹریل ویلفیئر ایسو سی ایشن کے پریسیڈنٹ نیرج سہگل نے کہا کہ مزدوروں کے بغیر فیکٹریاں چل نہیں سکتی ہیں اور کورونا کے خوف کے مارے مزدور کام پر لوٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مایاپوری صنعتی علاقہ میں تقریباً 1100 فیکٹریاں ہیں جن میں تین لاکھ سے
زیادہ مزدور کام کرتے ہیں، لیکن اس وقت زیادہ تر فیکٹریاں بند ہیں۔ دہلی کے بوانا فیکٹریز ویلفیئر ایسو سی ایشن کے صدر راجن لامبا نے بتایا کہ بوانا میں 16312 اور نریلا میں 6000 فیکٹریاں ہیں، لیکن ان میں سے 15 فیصد فیکٹریاں بھی اس وقت چالو نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مزدور لگاتار ہجرت کر رہے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ کورونا سے انفیکشن ہونے پر ان کا علاج نہیں ہو پائے گا۔

قومی راجدھانی دہلی میں 28 صنعتی علاقے ہیں جن میں لاکھوں مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں سے مزدوروں و کاریگروں کی دو کیٹگریز ہیں۔ کچھ مزدور و کاریگر مستقل طور پر پورے سال کام کرتے ہیں جب کہ دوسری کیٹگری کے وہ مزدور ہیں جو سال کے کچھ مہینے ہی کام کے لیے آتے ہیں۔ دہلی سمیت این سی آر علاقہ میں سینکڑوں صنعتی مقامات ہیں جہاں زیادہ تر فیکٹریاں بند ہیں اور مزدوروں کی ہجرت کے سبب مستقبل قریب میں ان میں کام کاج پٹری پر لوٹنے کی امید کم ہے۔ این سی آر واقع صاحب آباد انڈسٹریز ایسو سی ایشن کے صدر دنیش متل نے بھی کہا کہ مزدوروں کی ہجرت سے این سی آر میں صنعت پر اثر پڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو فیکٹریاں چل بھی رہی ہیں ان میں کام کرنے والے مزدور گھر جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ متل نے کہا کہ مزدوروں کی گھر واپسی کے سبب فیکٹریوں میں کام کاج شروع ہونے کی جو امید بندھی تھی وہ دھومل ہوتی جا رہی ہے۔کورونا قہر سے ملک کی معیشت کو باہر نکالنے کے لیے وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتہ خود کفیل ہندوستان مہم کا اعلان کرتے ہوئے 20 لاکھ کروڑ روپے کے معاشی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت انتہائی مائیکرو، اسمال اور مڈل یعنی ایم ایس ایم ای کے لیے کولیٹرل فری آٹومیٹک قرض مہیا کروانے کے لیے تین لاکھ کروڑ روپے کے پیکیج کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ترکیبیں کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی کاروباریوں کو بغیر کسی پریشانی کے قرض ملے اس کے لیے صنعتی ادارے بھی کوشاں ہیں۔پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس کے قومی صدر ڈی کے اگروال کا کہنا ہے کہ “ہم حکومت سے اپیل کریں گے کہ قرض ملنے کے عمل کو آسان بنایا جائے جس سے کسی کو قرض ملنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ چیمبر کی طرف سے ہم حکومت اور آر بی آئی کو اس سلسلے میں خط لکھنے جا رہے ہیں۔” سستے شرح پر قرض ملنے کی اس امید سے کاروباریوں میں کچھ جوش ضرور دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ڈاکٹر محمد گوہر
چیف ایڈیٹر، روزنامہ تا ثیر