مصر میں ماہ رمضان اور کوروناوائرس.

Taasir Urdu News Network | International Desk| Cairo (Egypt) | May 17, 2020

ڈاکٹر ولا جمال العسیلی
ایسوسی ایٹ پروفیسر
عین سمش یونیورسیٹی
قاہرہ۔مصر

ہر سال دنیا بھر میں  مسلمانان بے صبری سے رمضان کے مقدس مہینہ کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ اور کیوں نہ کرے کیونکہ یہ برکتوں والامہینہ ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں رمضان لوگ اپنے اپنے طور پر مناتے ہیں تاہم مصر میں رمضان کافی الگ طرح سے گزاراجاتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں مسلمانوں کی خاص عبادات جیسے تراویح پڑھنا اور اعتکاف میں بیٹھنے کے علاوہ مختلف ممالک میں کچھ روایات اور عادات بھی پائی جاتی ہیں۔ مصر میں بھی لوگ کچھ منفرد طریقے سے رمضان مناتے ہیں۔ ایک ساتھ مل کرافطار کرنا رمضان کا ایک اہم حصہ ہے۔ افطاری پارٹی تقریبا ہر جگہ انتظام ہوتاہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے دوستوں اور خاندانوں کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں اور افطار کی اجتماعی تقریب منعقد کرتے ہیں۔

اس ماہ کی روایات میں سے ایک روایت یہ ہے کہ لوگ سڑکوں پر مغرب کی اذان کے وقت کھجوریں اور جوس بانٹے ہیں۔ نیز اس مہینے کی ابتدا سے آخر تک مساجد کے اندر یا ان سے ملحقہ احاطوں میں رحمت کے دسترخوان کے نام سے خیمہ لگاتے ہیں اور اس میں لوگوں کو مفت افطاری میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ جن میں  خاص طور پر غریب اور مسکین لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی فلاحی تنظیمیں اور روزہ افطار کرانے والے مخیر حضرات غریبوں کے لئے کھانا اور افطار فراہم کرتی ہیں۔

افطاری سے پہلے ہمسایوں سے کھانا شئیر کرنا بھی ایک روایت ہے۔ ہمسایوں کے باورچی خانوں کے مابین کھانے کی مختلف قسموں اور گھر میں بنی ہوئی میٹھائی کا تبادلہ کیا جاتاہے۔ مصری لوگ اس روایت کو (رمضان کا کرم) کہتے ہیں۔

مختلف علاقوں میں افطاری کے فورا بعد بچے فانوس اٹھائےہوئے سڑکوں پر نیچے آتے ہیں۔ اور ایک عوامی گانا گاتے  ہیں: (حالو یا حالو رمضان کریم یا حالو) اس گانے کا مطلب: ارے یار خوش رہے، رمضان کریم۔ بچے اس گانے کو خوب شوق سے گاتے ہیں تاکہ گلیوں اور راستوں سے گزرتے وقت لوگ ان کو اس ماہ کی خاص میٹھائی دے دیں جسے کنافہ، قطایف وغیرہ کہتے ہیں۔ اور جب بچے سڑک پر فانوس سے کھیلتے ہوتے ہیں تو گھر کے دیگر افراد اپنے خاندان والوں کے ساتھ گپ شپ میں وقت گزارتے ہیں تاہم وہیں کچھ عورتیں ٹی وی چینلز پر رمضان کے ڈرامے دیکھتی ہیں۔ بہت سارے مرد اپنے ساتھیوں سے ملنے کی غرض کافی شاپ جا کر گفتگو کرتے ہیں اور اپنا وقت گزارتے ہیں۔ مصر میں رمضان کے مہینے میں رات بھرلوگ کافی ہاؤس اور ریسٹورانٹ جاتے ہیں جہاں سحری بھی پیش کی جاتی ہے۔

مصر میں  رمضان کی سب سے اہم نمائش اور ظاہری صورت یہ ہے کہ لائٹس کا عکس اور چمکتے ہوئے فانوس بالکنی اور سڑک پر لٹکایا جاتا ہے ۔اور رنگ برنگے کاغذی آرائشی گھروں کے مابین بندھے ہوتے ہیں جس سے رمضان کی رونق کا اندازہ ہوتا ہے۔

مصر میں بازاریں اس ماہ کے استقبال کا سب سے اہم حصہ  ہے۔ مصری لوگ اس ماہ کو منانے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی مختلف اقسام خریدتے ہیں۔ خاص طور پر خشک میوہ جات جسے (یامیش رمضان) کہا جاتا ہے۔ مصر کی دار الحکومت قاہرہ کے سڑکوں پر ہاکر میزیں بچھا کرخشک میوہ جات بیچتے ہوتے ہیں جو روز دارافطاری میں کھاتے ہیں۔ ان میوہ جات میں مشہور ترین اور پسندیدہ خشک کھجوریں اور خشک خوبانی کو کافی پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان بازاروں میں فانوس کی مختلف اقسام  دکھائی دیتے ہیں جس سے بازار کی رونق کافی بڑھ جاتی ہے۔

اس سال ماہ رمضان غیر معمولی حالات میں آیا ہے۔ ایسے حالات، جہاں ایک جان لیوا وبا کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس وبا نے تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور تباہی مچا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال مسلمانوں کے لئے رمضان کا مہینہ ہر سال کی طرح جیسا نہیں ہے۔ مصر میں بھی رمضان ہر سال کی طرح محسوس نہیں ہورہا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح مصر میں بھی کورونا وائرس کے کیسیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سےاس مہلک وبا کی وجہ سے رمضان سے جڑی تمام رسومات متاثر ہوئے ہیں۔ رمضان کی تمام سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ حکومت نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔ مساجد میں با جماعت نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ صرف لاؤد اسپیکر کے ذریعے پنج وقت نمازوں کی اذان دینے کی اجازت ہے۔ اور اب لوگ بحالتِ مجبوری اپنے گھروں میں ہی تمام عبادت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی پابندی سےاس مہینے میں عمرہ ادا کرنا بھی متاثر ہوا ہے جس کا ادا کرنا ماہ رمضان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حج کے برابر ہوتا ہے۔

ماہ رمضان کے دوران احتیاطی تدابیر عمل کرتے ہوئے رشتہ داروں کی زیارت تقریبا موقوف ہے۔ کورونا کی وبا نے لوگوں کو سماجی فاصلے اور دوری اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوگ اپنے پیاروں سے نہیں مل پار ہے۔ سحری اور افطاری میں اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ کھانے کا انعقاد ملتوی کر دیاگیا ہے۔ اب رمضان صرف کنبے کے افراد کے درمیاں گھروں پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بیچارے بچے بھی اب ایک لازمی لاک ڈاؤں میں گرفتار ہیں۔

سڑکیں ویران ہیں جو کبھی لوگوں کی بھیڑ سے شکایت کرتی تھیں اب لوگوں سے خالی ہیں۔ جس کی وجہ سے بالکل رونق نہیں ہیں۔ اس طرح رحمت کے دستر خون پر پابندی عائد کی گئی ہے اور فلاحی تنظیمیں بھی دستر خوان نہیں لگاتی تاکہ لوگ ایک ساتھ زیادہ جمع نہ ہوں۔ جس کے نتیجے میں بہت سارے غریب لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ اب بھی کورونا وائرس سے بچنے کے لئے لوگ بازار آنے سے گریز کررہےہیں۔ بازاروں میں ہجوم نہیں جیسے کہ ہر سال ہوتا تھا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ماہ رمضان المبارک میں اس باربہت ہی تبدیلیاں آ گئیں ہیں۔  رمضان سے منسلک مذہبی، سماجی اور اقتصادی رسومات پر اثرات بہت زیادہ ہوئے۔ سبھی لوگ محتاط ہیں  اور رمضان تنہا گزارنے پر مجبور ہیں۔ مصر میں رمضان  اس مقدس مہینے کی راتوں میں بڑی پر سکون ہے۔ خاموشی کا عالم ہےاور سناٹے کی وجہ سے عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے۔ تاہم مسجدوں سے آنے والی اذان نے دل کو پر رونق رکھا ہوا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے باوجود ہم اللہ کی عبادت اور نعمت سے محروم نہیں ہیں۔ شاید یہ ماہ رمضان  ہماری زندگی میں ہمیشہ ایک مایوس یاد کے طور پر بسا رہے گا جسے شاید ہم کبھی نہ بھلا پائے گیں۔