پورے ملک میں لاک ڈائون میں رمضان اور عید کے دوران مسلمانوں کا مثالی کردار اُبھرا

Taasir Urdu News Network | Patna (Bihar) | May 24, 2020 |

بالعموم سادگی اور کفایت شعاری کا مظاہرہ؛ اس کے ساتھ غربا، مساکین اور کورونا متاثّرین کی امداد کے لیے مسلم نوجوان بڑی تعداد میں سامنے آئے۔

صفدر امام قادری
صدر ، شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

مختلف حلقوںمیں ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ لاک ڈائون اگرعید سے پہلے ختم ہو جائے یا اس میں رعایت مل جائے تو مسلم قوم اپنی عمومی بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک اور بازاروں میں بھیڑ کی شکل میں اُتر آئے گی اور اس کے بعد کورونا متاثرین کی تعداد میں اچانک بڑے پیمانے پر اضافہ ہو جائے گا مگر پورے ملک سے جو اطّلاعات آ رہی ہیں، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ رمضان اور عید کے نام پر ہندستانی مسلمانوں نے بازار کی بھیڑ بڑھانے میں توقع کے برخلاف سرگرمی نہیں دکھائی۔ اس کے برعکس غربا، مساکین اور مہاجر مزدوروں کے لیے اشیاے خوردو نویش فراہم کرنے میں پورے ملک میں مسلمان نوجوان مختلف رضا کار تنظیموں کے ساتھ بڑی جاں سوزی سے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ہندستانی مسلمانوں کو تبلیغی جماعت کے مرکز کے سلسلے سے پیدا ہوئے تنازعات نے خبردار کر دیا تھا جس سے مزید کوئی ایسے اجتماعی اقدام سے تمام لوگوں نے گُریز کا راستہ چُناجہاں موجودہ قوانین اور صحت کے عمومی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے اُن پر الزامات لگتے۔ اِ سے دانش مندانہ اور بالغ نظراندازِ فکر قرار دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ کہیں کہیں سے نقاب پوشوں سے بازار آباد نظر آئے مگر اُنھیں استثنا کے طور پر لیا جائے گا کیوں کہ ہر سال کی عید کے مقابلے اس بار کی بھیڑ بھاڑ اور خریداری کے انداز کو دیکھیے تو یہ فرق بہت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ مسلمانوں کا اجتماعی عمل بالعموم معقول اور سلیقہ مند نظر آیا۔

یہ درست ہے کہ روزی روزگار کے اتنے بڑے مسائل سے ملک دو چار ہے۔ مزدور اور روزینہ کاروباریوں میں مسلم قوم کا تناسب اُن کی آبادی سے کافی زیادہ ہے ۔ بھوکوں مرنے کے جب حالات ہوں تو ایسے میں کس کے پاس نقد ہے کہ وہ ضروریات کے دائرے سے باہر نکل کر خریداری کرے اور فضول خرچی یا تہوار کی عمومی خریداری میں پورے اہل و عیال کے ساتھ بازار کا حصّہ بنے۔ ان مجبوریوں نے بھی ہمیں بازار سے دوٗر کیا اور ہم نے لاک ڈائون میں رعایت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت کے قوانین اور صحت کے اصولوں کی دھجّیاں اُڑانے سے بچے۔مسلمانوں میں ملازمت پیشہ افراد اور اچھے کھاتے پیتے لوگوں کا تناسب کافی کم ہے۔ اس طبقے نے مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے کفایت شعاری دکھائی اور خود کو اِن مشکل حالات میں سنبھال کر رکھا تاکہ آنے والے وقت کی پریشانیوں سے محفوظ رہیں۔

لاک ڈائون میں عالمی سطح پر ہندستان کی قومی شاہ راہوں پر بھوکے ، ننگے اور بدحال مزدوروں کو بے بس اور لاچار چھوڑ دیے جانے کے معاملات سب سے زیادہ اُجاگر ہوئے۔ دو اور تین تین ہزار کیلومیٹر پیدل چلتے ہوئے لوگوں نے سیکڑوں کی تعدا د میں اپنی جانیں گنوائیں۔ بچّے ، بوٗڑھے اور عورتیں اس بھیڑ میں سب سے عبرت آمیز زندگی کی مثال بنے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے انھیںواقعی رام بھروسے چھوڑ دیا۔ لوگ پندرہ بیس دن تک پیدل چل کر اپنے گھروں تک پہنچے۔ جب تمام حکومتوں نے اپنے کلیجے کاٹھ کر لیے ، اس کے باوجود مشکل تر موسم میں بھوک کے مارے یہ لوگ اتنے دنوں تک سڑکوں پر کیسے جیتے رہے ؟ اس بے چارگی کے عالم میں بھی وہ اپنے سفر کو جاری رکھنے میں کیسے کامیاب ہوئے اور اپنی منزلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ؟

جب مُلک کی حکومتیں ناکام ہوئیں، اس وقت ہم نے مہاراشٹر، کرناٹک ، گجرات ، آندھرا پردیش سے لے کر یو پی، بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی سڑکوں پر رضاکارانہ طور پر اشیاے خوردونوش کی تقسیم کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سامنے آ گئے۔ بِسکِٹ اور پانی سے لے کر کھانے کے سامان کے ساتھ چپّل جوتوں کی تقسیم جگہ جگہ اس طرح سے ہونے لگی جس سے ان مزدوروں کو دو چار گھنٹے کے وقفے میں کچھ نہ کچھ کھانا مِل جاتا رہا اور یہ سڑک پر بھوک سے مرنے سے بچ گئے۔ ہر چند تیز رفتار بسوں ، ٹرکوں اور ٹرینوں نے سیکڑوں جانیں لیں مگر ہزاروں رضاکاروں کی کوششوں سے لاکھوں لوگ بھوک سے مرنے سے بچے۔ سڑکوں پر کئی کئی مہینوں سے خدمات انجام دینے والے یہ افراد ملک کے ہر گوشے میں سامنے آئے اور انھوں نے ہی انسانیت کی لاج رکھی۔

کرناٹک سے سائیکل سے چل کر بہار پہنچنے والے ایک مزدوروں کے گروپ نے اپنی پریشانی اور جاں سوزی کے مرحلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر فرقہ پرست جماعتوں کی مذمّت کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ راستے میں اگر مسلمان طبقے کے افراد نے اُن کی بار بار مدد نہ کی ہوتی تو وہ بھوک سے سڑکوں پر لاش بن گئے ہوتے۔اتّفاق سے اُن میں سب غیر مسلم تھے اور زیادہ کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدور تھے۔ انھوں نے بتایا کہ راستے کے مسلم گائوں کے لوگوں نے پوچھ پوچھ کر اُن کی معاونت کی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود بھی غریب لوگ تھے مگر ہماری مدد میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ وہ کئی ریاستوں سے گزرے ، اس لیے ان کے پاس یہ مواقع تھے کہ اہلِ کرم کے تماشے دیکھ سکیں اور اپنی مشکلات سے نجات حاصل کر سکیں۔

ہندستان میں مشنری افراد اور سکھوں کی تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں سے ایک عالَم واقف ہے۔ آر ۔ایس۔ ایس یا دوسری انتہا پسند ہندو وادی تنظیمیں مذہبی جنون پیدا کرنے ، فرقہ پرستی پھیلانے اور اپنی حکومت کی تعریف و توصیف میں کچھ اس طرح سے آنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کانگریس اور بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی کم و بیش یہ بیماریاں عام ہیں جس کی وجہ سے عوامی خدما ت کے کاموں سے سیاسی پارٹیاں روز بہ روز دوٗ ر ہوتی جا رہی ہیں۔

ملک کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں ہندستانی مسلمانوں بالخصوص اور نوجوانوں میں بالعموم نئی سوٗجھ بوٗجھ پیدا ہوئی ہے۔ سی۔ اے۔ اے۔ اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں مسلم نوجوانوں نے ہم وطن جمہوریت پسند لوگوں سے جو تعلّقِ خاطر قائم کیا تھا، وہ ابھی بہت ساری جگہوں میں راحت کاری میں کام آ رہا ہے۔ ظاہر ہے، اس میں مسلمان زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ گائوں گائوں میں اپنے نوجوانوں کی مدد کے لیے بوٗڑھے اور بااثر افراد بھی سامنے آئے۔ سب کی مذہبی تعلیم فلاح و بہبود کے کاموں میں وقف ہو جانے کی تھی، اس لیے یہ آسان ہو گیا کہ مسلم نوجوانون گائوں گائوں سے کھانے کے سامان مانگ کر اپنے مزدور بھائیوں کے لیے معاونت میں سڑکوں پر اُتر آئے۔

اس بار ماہِ رمضان المبارک نے عام مسلمانوں کے اس رضاکارانہ شوق میں زبردست اضافہ کیا ۔جن لوگوںکی زندگی مشکل سے گزرتی ہے ، وہ بھی اپنی استطاعت سے بڑھ کر دوسرے کی امداد کرتے ہوئے نظر آئے۔ عام مِڈِل کلاس تو اپنے گھروں میں دُبکا پڑا ہے، ایسے میں سڑکوں پر بے بسی کی تصویر نظر آنے والے مزدوروں کے سامنے انسانی ہم دردی اور محبّت کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے جسے رمضان نے مزید مستحکم اور باعثِ ثواب بنا دیا۔ مذہبِ اسلام کے اس حقیقی پیغام کو یہ نوجوان عام کر رہے ہیں۔

مشکل حالات اور پیچیدہ صورتِ حال میں شاہین باغ سے مسلم نوجوانوں نے حقوق کی لڑائی اور احتجاج کے بھولے ہوئے سبق کو یاد کیا تھا۔ لاک ڈائون نے اسلام کے سماجی اور فلاحی پیغام کو پھیلانے کا انھیں درس دیا۔ جب بالعموم مسلم ادارے اور ملّی تنظیموں کے افراد بے اثر اور معمولی نظر آ رہے ہیں، ایسے میں لاک ڈائون نے مسلم نوجوانوں کو رضاکارانہ جذبے سے سرشار کر دیا ہے جس سے وہ اپنی فضول خرچی سے نجات حاصل کرکے تھوڑی تھوڑی رقم جمع کر کے عام غربا، مساکین اور مہاجر مزدوروں کی عمومی معاونت میں خود کو خرچ کر رہے ہیں۔ اسے نیک فال سمجھنا چاہیے۔ ابھی مشکلات کم نہ ہوں گی، اس لیے ہمارا یہ پیغام ہے کہ اپنی کوششوں کو جاری رکھیں۔ کون جانے، رمضان اور عید میں مسلمانوں نے جو قربانیاں دی ہیں،خدا ہندستان اور پوری دنیا کے مصائب کو اس کے بدلے میں اُٹھا لے۔آمین

تقسیمِ ملک کے موقعے سے پورے ملک میں جو فسادات برپا ہوئے، ان کی راحت کے سلسلے سے کانگریس کارکنوں کی سرگرمی براے نام تھی۔ بہار کے فسادات کے سلسلے سے مہاتما گاندھی کے خطوط گواہ ہیں جن میں انھوں نے کانگریسی لیڈروں کو اقتدار میں مست اور عوام کے دکھ درد سے دوٗر بتایا۔ اُس موقعے سے سوشلسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے بنگال ، بہار ، یوپی اور پنجاب کے فساد متاثّرین کے بیچ نہایت موثّر کام کیا اور عوام کے دُکھ درد میں کام آئے ۔ بعض مورّخین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے کارکنان کی انسان دوستی اور حسنِ سلوک سے لوگ متاثّر ہو کر بڑے پیمانے پر ترکِ وطن کے لیے تیّار ہو گئے۔ آج یہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ انسانی خدمت کے کام کو کچھ اس طرح جاری رکھیں کہ پورا ملک اور پوری دنیا اُن کے اس جذبے کو سر آنکھوں سے لگائے۔ اسی سے ہماری قومی اور عالمی امیج بھی بدلے گی اورہمارا ملک اور ہماری دنیا بھی۔

(مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ کے صدر شعبۂ اردو ہیں)
Email: safdarimamquadri@gmail.com