کچھ باتیںانعاموںکی

Taasir Urdu News Network | May 27, 2020

مجتبیٰ حسین

معزز خواتین وحضرات ! جوں جوں میں اپنی تاریخ ِپیدائش سے بہت دْور اور اپنی تاریخ ِوفات سے قریب ترہوتاجارہاہوں،مجھے شدت سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ میری عمر کی نقدی اب قریب الختم ہے اور مجھے اْدھارکی حاجت ہے۔یوں سمجھیے کہ اب میں “ڈیلی ویج”کے اْصول پرزندہ رہ کر روز کی زندگی رو زجیتاچلاجارہاہوں۔ بہت پہلے داغ دہلوی نے ایک شعر کہا تھا:

ہوش وحواس ،تاب وتواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میرے تاب وتواں تو کب کے جا چکے ہیں البتہ میرے ہوش وحواس اب بھی صحیح وسالم ہیں۔یوں سمجھیے کہ میرا بڑْھاپااپنے شباب پر ہے اورمجھ میں اس سے زیادہ بوڑھاہونے کی دوردور تک کوئی گنجائش نظرنہیں آتی۔ گوشہ نشینی کی زندگی گزارتا ہوں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔

حضرات! اس سے پہلے کہ میں بزم صدف انٹرنیشنل،دوحہ قطر کے ربابِ مجاز کی جانب سے مجھے ملنے والے انعام کا تہہ دل سے شکریہ اداکروں،میںیہاںاپنے بزرگ دوست ملک زادہ منظوراحمدمرحوم کی مشہورخودنوشت ’’رقصِ شرر‘‘ کاحوالہ دینا چاہوں گا جس میں انھوں نے 2000 ء میں میرے ساتھ پیش آئے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جسے آپ اْن ہی کی زبانی سماعت فرمائیے:

’’نیشنل کونسل فارپرموشن آ ف اردو کی ایک میٹنگ میں مجتبیٰ حسین نے اپنے مخصوص طنزیہ ومزاحیہ انداز میں ایک بات کہی جوبہت معنی خیز اور بلیغ تھی۔

میں نے اْن سے کہا’’بہت دنوں بعد ملاقات ہورہی ہے‘‘۔
وہ بولے ’’ہاں! میں بہت کم گھر سے نکلتا ہو ں۔ ڈرنے لگاہوں‘‘۔
میں نے پوچھا ’’ کس چیز کا ڈر؟‘‘۔
معصومیت سے بولے ’’ڈر تا ہوں کہ کہیں کوئی مجھے پکڑ کر کوئی ایوارڈ نہ دیدے‘‘۔

اس خاکسارپرایک وقت ایسابھی بیت چکاہے جب انواع واقسام کے ایوارڈدینے والوںکے ہاتھوںناچیزکے دونوںہاتھ تھکنے لگے تھے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ میری مزاح نگاری پر سے بائیس برسوں تک کاعرصہ بیت جانے کے باوجودکسی اْردو تنظیم نے مجھے انعام دینے کے قابل نہیں سمجھاتھا۔تاہم 198میںاْڑیازبان کے ادیبوںکی تنظیم سرس ساہتیہ سمیتی نے مجھے ’’ہاسیہ رتن‘‘یعنی (گوہرِمزاح)کے اعزازسے نہ صرف نوازابلکہ کٹک میںدوروزہ جشن منعقدکرکے اْڑیازبان میںمیرے مضامین کی ضخیم کتاب بھی شائع کی۔

مجھے یہ کہتے ہوئے فخرمحسوس ہوتاہے کہ میںنے اپنی زندگی میںاْردوکاپہلاانعام جوپہلاغالب انعام برائے اْردوطنزومزح بھی تھا‘ وزیراعظم ہندوستان شریمتی اندراگاندھی کے مبارک ہاتھوںسے حاصل کیا۔یہ 1984کی بات ہے۔اس کے بعدیوںسمجھیے کہ مجھ پراْردووالوںکی طرف سے انعامات اوراعزازات کی بوچھارسی لگ گئی۔ملکی انعامات واعزازات کے علاوہ مجھے سعودی عرب،مسقط،دوبئی،کناڈا،برطانیہ،امریکہ اورپاکستان سے بھی بیسیوںانعامات ملے۔تاہم 2000میںجب مجھے ہندوستانی نژادامریکی مسلمانوںکی تنظیم( American Federation of Muslim Indianof Origin)کی جانب سے رات کے دوبجیفون پریہ اطلاع ملی کہ اس تنظیم نے مجھے 2000لئے میرتقی میرایوارڈدینے کافیصلہ کیاہے تومیںنے گہری نیندسے جاگ کرہڑبڑاتے ہوئے پوچھا’’یہ میرتقی میرصاحب کون ہیں؟۔گرین کارڈہولڈرہیںیاباضابطہ امریکی شہری ہیں؟۔ انجینرہیںیاڈاکٹر ہیں؟‘‘۔

جواب آیا’’یہ وہی میرتقی میرہیںجنھیںٹْک روتے روتے سوجانے کی پرانی عادت تھی۔یہ الگ بات ہے کہ آپ ٹْک ہنستے ہنستے سوجانے کے عادی ہیں۔یادش بخیر! ایسی ہی اتفاقی ہڑبڑاہٹ اوربوکھلاہٹ مجھ پراْس وقت طاری ہوگئی تھی جب2007میںحکومت ہندنے ناچیزکوپدم شری کے اعزازسے نوازاتھا۔یقین ،مانیے دنیابھرسے مبارکبادیوںکے سینکڑوںفون وصول ہونے لگے اورناچیزکی زبان شکریہ اداکرتے کرتے سوکھ گئی۔ایسے میںمیرے ایک بدخواہ اورحاسدنے جب فون پرمجھے گالیاںدینی شروع کیں توتب بھی میںیہ کہتے رہ گیا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ کی عنایتوںاورذرّہ نوازی کے لیے تہہ دل سے شکرگزارہوں‘‘۔بہرحال فون اْٹھاتے اْٹھاتے جب میںعاجزآگیاتومیںنے اپنی اہلیہ سے کہاکہ اب وہ فون اْٹھائیںتاکہ میںکچھ دیرآرام کرسکوں۔مگرپہلے ہی فون کال پرکسی نے ہماری بیگم سے پوچھ لیا:’’کیاپدم شری گھرپرہیں؟‘‘۔

محترمہ نے کہا’’جی ہیںتوسہی مگرذرآرام فرمارہے ہیں‘‘
دوسری طرف سے آوازآئی’’آپ کون بول رہی ہیں؟‘‘۔
اس پرمیری اہلیہ نے بے ساختہ کہا ’’میںشریمتی پدم شری بول رہی ہوں‘‘۔
اس پر میںنے اْن کے ہاتھ سے ریسیورکوچھینتے ہوئے کہا ’’محترمہ!بوکھلاہٹ میںآپ بھی مزاح نگا ربنتی چلی جارہی ہیں‘‘۔

آج جب میںپیچھے ْمڑکردیکھتاہوںتواحساس ہوتاہے کہ انعامات دینے والوںنے ماضی میںمجھے انعام دینے کے معاملہ میںاتنی عجلت اورجلدبازی دکھائی کہ انعامات کاحصول اب میرے حق میںگھاٹے کاسودامعلوم ہوتاہے۔چنانچہ1984 ہمیںمجھے جوپہلاغالب انعام ملاتھاتواْس کی مالیت اْن دنوںدس ہزارتھی جب کہ آج اس کی مالیت پچھترہزارکی ہے-1993میںجب مجھے اندھراپردیش اْردو اکیڈمی کاکل ہند مخدوم محی الدین ایوارڈملاتھاتواْس کی مالیت اْن دنوںپندرہ ہزارتھی جب کہ آج یہ انعام سوالاکھ کاہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش،کرناٹک، ہریانہ،مہاراشٹر،پنجاب اوردہلی کی اْردواکیڈیمیوںنے طنز ومزاح کے فروغ کے لئے جوانعامات مجھے دئے تھے، اْن کی مالیت اْن دنوںفی کس پندرہ ہزارتھی مگرا?ج ان سب کی مالیت پچاس ہزارروپے ہوگئی ہے۔یوںلگتاہے جیسے اِن اداروں نے مجھے قبل ازوقت انعامات دے کرایک گہری سازش رچی تھی تاکہ میںتونگراورمالدارنہ بن سکوں۔

انعامات یادآنے لگے ہیں تواب مجھے اپنے بزرگ دوست آنجہانی تاراسنگھ کامل کی یاد آرہی ہے جوپنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔انھیںجب حکومت پنجاب نے اْن کی مجموعی خدمات کے اعتراف میںاپنے سب سے بڑے انعام سے نوازاتومیںنے تاراسنگھ کامل کومبارکباددی۔اس پرانھوںنے آنکھ مارکرہنستے ہوئے کہا’’میاںمجتبیٰ!اس میںمبارکباددینے کی کیاضرورت ہے۔ تم توجانتے ہوکہ اس طرح کے ایوارڈکس طرح حاصل کئے جاتے ہیں‘‘۔

ایک زمانہ تھاجب ایوارڈوںکے معاملے میںصرف دوفریقوںکے ہاتھوںکی اہمیت ہواکرتی تھی۔ایک ہاتھ ایوارڈدیتاتھا اوردوسراہاتھ اس ایوارڈ کوقبول کرتاتھا۔لیکن اب اس میںایک تیسراہاتھ بھی نمودارہوگیاہے جوایوارڈدلاتاہے۔اب اہمیت ایوارڈدینے اورلینے والے کی نہیںرہ گئی ہے بلکہ ایوارڈ دلانے والے کاہاتھ ہی مرکزی اہمیت اختیارکرگیاہے۔ میرے ایک معصوم دوست نے برملایہ اعتراف کیاتھاکہ اس نے پچاس ہزارروپے کاایک ایوارڈ حاصل کرنے کی غرض سے جملہ پچھترہزارروپے خرچ کئے تھے۔آپ کویقینا پتہ ہوگاکہ بعض اداروںکے انعام اتنے بے توقیراورکم سوادہوچکے ہیںکہ جس کسی کویہ انعام ملتاہے، وہ انعام یافتہ کم اورسزایافتہ زیادہ نظرآنے لگتاہے۔ خداکالاکھ لاکھ احسان ہے کہ عمرکے پچاسی برس گزارنے کے باوجودمیںنے کسی ایوراڈکے حصول کے لیے نہ توکسی کے آگے اپنا ہاتھ پھیلایااورنہ ہی کسی تیسرے ہاتھ کی خدمات حاصل کیں۔

خواتین وحضرات ! میںکسی مصلحت پسندی کے بغیربہ بانگ دہل یہ اعلان کرناچاہتاہوںکہ یوںتوساری اْردودنیامیںمیرے بے شمارمدّاح اوربہی خواہ بکھرے ہوئے ہیں لیکن میرے مدّاحوںکی اکثریت بہارمیںزیادہ آباد ہے۔شایدہی کوئی دن ایساگزرتاہوجب بہارسے میرے پاس کسی نہ کسی مدّاح کافون نہ آیاہو۔اپنے بہاری دوستوںاورکرم فرماؤںکے نام گنانے لگوںتوقصہ طولانی ہوجائے گا۔یوںبھی یہ معاملہ حسابِ دوستاںدردل والا ہے۔ یہی نہیں2011میںجب مجھے وزٹینگ پروفیسربننے کا اعزازحاصل ہوا تواندازہ ہواکہ قدرت نے بہارکے مائیہ نازسپوت اوربہارکے پروفیسر سیدمحمدحسنین کے فرزندپدم شری احتشام حسنین کو محض اس لئے حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی کاوائس چانسلرمقرر کیاکہ ایک دن وہ مجھے اپنی یونیورسٹی میںوزٹینگ پروفیسرمقرر کردیں۔مجھ جیسے نرے گریجویٹ کے لئے یہ ایک بہت بڑااعزازتھا۔

بہرحال پچھلے دنوںمیںحسبِ معمول اپنے سفرآخرت کی تیاریوںمیںمشغول تھاکہ پردہ ? غیب سے میرے ٹیلی فون پرآوازآئی ’’میں پٹنہ سے صفدرامام قادری بول رہاہوں۔ا?پ کویہ خوش خبری سنانی ہے کہ بزم ِصدف انٹرنیشنل ایوارڈکی انعامی کمیٹی نے آپ کو2017کا اپناانعام دینے کا فیصلہ کیاہے جس کی مالیت ایک لاکھ روپے ہوگی۔ میںنے جواباً کہا’’قبول کیامیںنے‘‘۔اس کے فوراًبعدپروفیسر زاہدالحق‘ جومیرے بہت پرانے ناقابل علاج مدّاح اوربہی خواہ ہیں، کی غیبی آوازآئی۔’’جناب مجھے آپ کی صحت کی خرابی کاعلم ہے۔لہذامیںخود29دسمبرکوآپ کولے کرپٹنہ آونگااورپھر31دسمبرکوحیدرآبادبھی واپس لے جاؤنگا‘‘۔

دیکھاآپ نے حضور! یاتومیںکچھ دیرپہلے اپنے سفرِآخرت کی تیاریوںکے بارے میںغورکررہاتھاکہ اچانک پٹنہ کے سفرکے بارے میںسوچنے کامرحلہ آگیا۔میرے ایک بہاری دوست نے بہت پہلے کہاتھا’’مجتبیٰ حسین !زمانہ تمھیںجینے نہیںدیگا اوربہاری تمھیںمرنے نہیں دیںگے‘‘۔میںبزم صدف انٹرنشنل کے اربابِ مجاز شہاب الدین احمد،پروفیسرصفدرامام قادری،پروفیسرزاہدالحق اوررفیق دیرینہ ڈاکٹرظفرکمالی کے علاوہ انعامی کمیٹی کے معزز ارکان مشتاق احمدنوری،پروفیسرارتضیٰ کریم،پروفیسرمحمودالاسلام (بنگلہ دیش)اوربہارکے ادب دوستوں کا تہہ دل سے ممنون ہوں جنھوںنے مجھ ناچیز پرہمشیہ اپنی محبتیں نچھاورکیں۔

خواتین وحضرات!جیساکہ آپ جانتے ہیں،اپنے ادبی سفرمیںمجھے بہت سے انعامات مل چکے ہیں۔کئی انعامات تومیری مجموعی خدمات کے صلے میں بھی ملے ہیں۔کیایہ ممکن ہے کہ اگلی بارجب مجھے کوئی ایوارڈملے تووہ میری ’’مجموعی خدمات‘‘ پرنہ ہو بلکہ میرے’’ مجموعی انعامات‘‘پربھی ہواورکیاہی اچھاہوکہ ایسے انعام کے پیچھے بھی کسی بہاری کرم فرماکاہی ہاتھ ہو(آمین)رہے نام اللہ کا۔