ہرانسان مزاح نگار بن سکتابشرطیکہ آپ مجتبیٰ حسین کوسمجھیں اورپڑھیں….

Taasir Urdu News Network | Hyderabad (Telangana) | May 28, 2020

(طنزومزاح کے ایک عہد کا آج خاتمہ)
ڈاکٹرمختاراحمد فردین

نوٹ: حیدرآباد سیپٹنہ کے سفر میں ساتھ 6گھنٹے کا رہا موسم کی خرابی کے سبب ایوارڈ فنکشن میں آپ شامل نہیں ہوسکے اور طیارہ گھنٹوں بادلوں میں چکر لگاتا رہا، سفر میں زندگی کا خطرہ پھر بھی ہشاش بشاش رہے حالانکہ میں گھبرا رہا تھا، مگر حالات اور ایوارڈ پانے کی اندر سے خوشی نے انہیں سنبھال رکھا تھا، یہ سفر زندگی کا بہت تکلیف دہ تھا اور یہ ڈر بھی کہ کب کیا ہوجائے، مگر مجتبیٰ حسین صاحب ہمیں ہی حوصلہ دیتے رہے، مگر قسمت میں یہ سفر جیسے ادھورا ہی رہ گیا، کیونکہ پٹنہ طیارہ نہیں جاکر کلکتہ پہنچ گیا اور میرے بہت اصرار پر کے آپ کلکتہ چلیں میرے گھر‘ دوسری صبح پھر پٹنہ چلیں گے لیکن ان کی طبعیت کی ناسازی نے پھرحیدرآباد اسے طیارہ سے واپس آگئے۔

 

(اردو کے مشہور مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین کا انتقال ہوگیا۔وہ 15 جولائی1936 کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1956میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ جوانی سے ہی انہیں طنزومزاح کی تحریروں کا ذوق تھا جس کی تکمیل کے لیے روزنامہ سیاست سے وابستہ ہو گئے اور وہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔1962ء میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کاآغاز کیا۔ 1972 میں دہلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔دلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992 میں ریٹائر ہو گئے۔ مجتبیٰ حسین ملک کے پہلے طنزومزاح کے ادیب ہیں جن کو وفاقی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار پدم شری کے باوقار سویلین اعزاز سے نوازا۔ تاہم انہوں نے جاریہ سال کے اوائل میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج پدم شری ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہوئیں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی۔انہیں 10 سے زائد ایوارڈز حاصل ہوئے جن میں غالب ایوارڈ، مخدوم ایوارڈ، کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ، جوہر قریشی ایوارڈاوراور میر تقی میر ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کے طویل خدمات کے اعتراف میں کرناٹک کی گلبرگہ یونیورسٹی نے 2010 میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا)

کہتے ہیں کہ جس نے مجتبیٰ حسین کودیکھا اس کا تعلق جیسے طنزومزاح سے اس کا تعلق جڑگیا۔ مجتبیٰ حسین آج کی تاریخ میں طنزومزاح کی وہ شخصیت ہیں جن کی شخصیت کوبہت قریب سے اگرآپ جاننا چاہتے ہیں توان کی تمام کتابیں جوویب سائیٹ پردستیاب ہیں اس کامطالعہ بہت ضروری ہے۔ آج کی نسل کے لیے خاص کرریسرچ اسکالر کے لیے مجتبیٰ حسین کی طنزومزاح نگاری ‘ جن کے تمام عنوانات عام زندگی سے لی گئی ہیں اگرآپ ہرایک موضوع کا مطالعہ کریں توایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کردار آپ کاہی ہے اورمجتبیٰ حسین آپ سے مخاطب ہیں۔ ان کی شخصیت کو سمجھنا بہت آسان ہے اس کی وجہ طنزومزاح کے ذریعہ آپ نے بہت سیدھی سادھی زبان میں لوگوں کے نبض پرہاتھ رکھا اوراسی کوآپ نے قلمبندکیا۔مطالعہ کی دلچسپی مضمون کے آغاز سے لیکر اختتام برقراررہتی ہے۔ طنزومزاح کی زبان میں بات کڑوی ہو لیکن اردومیں جوبات کہی جاتی ہے وہ بہت شیریں بن جاتی ہے اس کی وجہ یہ الفاظ مجتبیٰ حسین کے قلم سے جونکلتے ہیں ۔

محبت ایک خوشبوہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا

مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔دنیا خوب جانتی اورپہچانتی ہے کہ مجتبی حسین اردو کے ممتاز مزاح نگارہے۔بقول مضطر مجاز کہ:’’ مزاح نگار ہنستے ہنستے ایسے پتے کی بات کہہ جاتا ہے کہ بڑے بڑے فلسفیوں ‘ادیبوں اورنقادوںکوبھی نہیں سوجھتی۔مجتبی حسین کا کمال یہ ہے کہ پتے کی ایسی باتیں تحریروںمیں جابجامل جاتی ہیںاور خشونت سنگھ نے مجتبی حسین کے سفرناموں کوپڑھ کر کہااورلکھا کہ وہ اپنے آپ پرہنسے کا بڑا حوصلہ رکھتے ہیں اورپروفیسر بیگ احساس لکھتے ہیں کہ مخدوم محی الدین کے بعدمجتبی حسین وہ واحد فنکارہیں جنہیں حیدرآبادیوں نے ٹوٹ کرپیار کیا ‘‘۔اورڈاکٹراشفاق احمدورق لکھتے ہیں کہ ہندوستانی مزاح کی نصف صدی کا سہرا برملا طورپر مجتبی حسین کے سرہی جاتا ہے۔ان باتوں کی روشنی میں مجتبی حسین اردوکے ممتاز مزاح نگارہیں۔

15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ جوانی سے ہی انہیں طنزومزاح کی تحریروں کا ذوق تھا جس کی تکمیل کے لئے روزنامہ سیاست سے وابستہ ہوگئے اور وہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔‘‘ میراکالم ‘‘ ان کا مشہور مزاحیہ کالم ہے جو روزنامہ سیاست میں ہر اتوار کو شائع ہوتا ہے۔ مجتبیٰ حسین ملک کے پہلے طنزومزاح کے ادیب ہیں جن کو وفاقی حکومت نے بحیثیت مزاح نگار پدم شری کے باوقار سویلین اعزاز سے نوازا۔ مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی 7 کتابیں ہندی زبان میں شائع ہوئیں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی۔ انہیں 10 سے زائد ایوارڈز حاصل ہوئے جن میں غالب ایوارڈ، مخدوم ایوارڈ، کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ، جوہر قریشی ایوارڈاوراور میر تقی میر ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کے طویل خدمات کے اعتراف میں کرناٹک کی گلبرگہ یونیورسٹی نے 2010ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے دو سال کے لیے شعبہ اردو میں ان کا بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر تقرر کیا۔ حیدرآباد میں آج بھی وہ سرگرم ہیں۔کسی بھی ادبی پروگرام میں آپ کی شرکت پروگرام کی کامیابی کا سبب بن بنتی ہے۔

علامہ اعجاز فرخ مجتبی حسین کے تعلق سے لکھتے ہیں 

’’ شاید یہ بات درست ہے کہ ہر فنکار کا فن اس کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔رہی بات ہنر مندی کی تو موسیقی کی زبان میں یہ اس کے ریاض پر منحصر ہے۔مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری کے تعلق سے خود ان کا خیال ہے کہ جگر صاحب نے شاہد صدیقی کے ارتحال کے بعد ان سے یہ کہا کہ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کالم وہ لکھا کریں۔جگر صاحب کے اس فرمان کی تعمیل کو مجتبیٰ حسین’’فرماں برداری‘‘ کہتے ہیں۔ان کے خیال میں وہ تمام عمر یہ فرماں برداری فرماتے رہے، جسے ہم مزاح نگاری سمجھتے آرہے ہیں۔میرے اپنے خیال میں جب تک حسیت قوت متخیلہ اور مشاہدہ کسی فرد میں رچا بسا نہ ہو یا بالفاظ دیگرINBUILTنہ ہو، وہ کبھی فنکار نہیں بن سکتا۔اس کے بعد ترسیل و ابلاغ کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے مجتبیٰ حسین کی فنکاری کا راز دروں جگر صاحب کی نگاہ گوہرشناس ہے کہ انہوں نے ان کے اندر کے فنکار کے مستقبل کی قامت کو اپنی نگاہ کے پیمانے سے ناپ لیا تھا۔اس مختصر سے مضمون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ان کی تحریروں کا جائزہ لے سکوں اور پھر جب کئی اسکالرز متعدد یونیورسٹیز سے اوزار سنبھالے ان کی شخصیت میں کھدائیاں کرتے ہوئے دفینے بر آمد کرکے اپنے آپ پر پی ایچ ڈی کے تمغے سجارہے ہوں، وہاں میری بساط کیا۔اتنی ساری تحقیق کے بعد بھی ہر شخص کی ذات میں کچھ نہاں خانے اور کچھ بھول بھلیاں ایسی ہوتی ہیں، جہاں ہر کس و ناکس کا گزر ممکن نہیں۔بعض لوگ اس سے دانستہ بھی گریز کرتے ہیں کہ کہیں وہ ان بھول بھلیوں میں گم نہ ہوجائیں اور کچھ نہاں خانوں کی سیر ذات کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے کہ بھرے درختوں کے باوجود بن کی تنہائی یا روز و شب کے ہنگاموں میں خود انجمن کی انتہائی کو محسوس کرنا سب کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔‘‘

اردو ادب میں مجتبی حسین کوجومقام حاصل ہے جیسے لگتا ہے کہ یہ صدی ان کی ہی ہے۔اس شعر کے حوالے سے

کہہ دو میرو غالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے.

یہ 1962کی بات ہے جب سیاست کے مشہور مزاحیہ کالم لکھنے والے جناب شاہد صدیقی کا انتقال ہوگیاتھا۔ اس کے بعد جگرحسین کے حکم پر مجتبی حسین صاحب نے اس اہم کام کی ذمہ داری سنبھالی اور دنیا نے دیکھاکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس میدان کے بادشاہ بن گئے۔

’’جو لوگ روزانہ مزاحیہ کالم نگاری کرتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ روزانہ مزاحیہ کالم نگاری ایک کڑی آزمائش کا نام ہے۔ اچھے اچھوں کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ بائیس برس پہلے کی رات مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میری چھ سالہ بیٹی اچانک اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ علی الصبح مٹی کا قرض مٹی کو سونپ کر قبرستان سے واپس ہوا۔ ابھی ہاتھوں سے قبر کی مٹی بھی اچھی طرح نہیں جھاڑی تھی کہ مزاحیہ کالم لکھنے بیٹھ گیا۔ کالم چھپا تو لوگوں نے اس کی بے حد تعریف کی۔ سبحان اللہ۔ ماشاء اللہ۔ میں حیرت میں پڑ گیا۔ لوگوں کو اْن حالات سے واقف کرانے کی کوشش کی جن میں ، میں نے یہ کالم لکھا تھا۔ پھر یہ بھی کہا :

’’ بیٹی تو روز روز نہیں مرتی لیکن اخبار کے کالم کو ہر روز زندہ رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

اس کے جواب میں لوگوں نے میری طرف یوں دیکھا ، جیسے کہنا چاہتے ہوں ’’ خدا کرے ، تیری بیٹی ہر روز اسی طرح مرتی رہے اور ہمیں تیرے دلچسپ کالم پڑھنے کو ملتے رہیں۔ ‘‘

اس واقعہ کے بعد اچانک مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ مزاح نگاری ، دراصل اپنے اور دوسروں کے دکھ کو کبھی خوبصورتی کے ساتھ چھپانے ، کبھی اسے اجاگر کرنے ، درد کے چہرے پر خوش گواری کا مکھوٹا چڑھانے اور ناگوار زندگی کو گوارا بنانے کا نام ہے۔ مزاح نگار کا صرف ظریف ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا باظرف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اْس کے بعد سے میری مزاح نگاری کا یہ نصب العین بن گیا کہ آنکھوں میں قہقہے اور ہونٹوں پر آنسو سجاتے چلے جاؤ۔ سچا مزاح نگار وہی ہے جو اپنے غموں کو چھپاکردوسروں کو زندگی کاحوصلہ دیتا ہے۔اس شعر کی روشنی میں :

نئے نظام سے نامطمئن طبعیت ہے
اک انقلاب کی دنیا کوپھر ضرورت ہے

” لوگ پیٹ کے لئے روتے ہیں اور میں پیٹ کے لئے ہنسنے لگا اور اب تک ہنستا چلا جارہا ہوں “۔ان کا پہلا مضمون غالب کی طرفداری میں ماہنامہ صبا میں چھپا تھاجو 1964 ء میں لکھا گیا تھا۔ یہ بھی اس کتاب سے پتہ چلتا ہے۔اس مضمون کی ادبی حلقوں میں بہت پزیرائی ہوئی تھی۔

مجتبی حسین کی ایک تحریر’’ سوئز بینک میں کھاتہ ہمارا‘‘ بڑی مقبول ہے۔ اس میں انکا انداز بھی نمایاں ہے اور ایک پیغام بھی بیان کرتے نظر آئے۔ اسے لکھتے ہو ئے مجتبی صاحب نہ گھبرائے ، نہ ہچکچائے بے دھڑک اپنی حیثیت کو رقم کیا او راس بحث کا حصہ بن گئے ۔وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ میں نے کہا’’ بیگم! کان کھول کر سن لو۔ یہ پہاڑ اور قدرتی مناظر، سب بہانے بنانے کی باتیں ہیں۔آج تک کوئی سوئزر لینڈ میں صرف پہاڑ دیکھنے کے لیئے نہیں گیا۔ پہاڑ کی آڑ میں وہ کچھ اور کرنے جاتا ہے۔ سوئزر لینڈ کے پہاڑ اس لیئے اچھے لگتے ہیں کہ ان کے دامن میں سویٹذر لینڈ کے وہ مشہور و معروف بینک ہیں جن میں پیسہ جمع کراؤ تو پیسہ جمع کرانے والے کی بیوی تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس کے شوہر کا پیسہ جمع ہے۔ ایک ساحب کہ رہے تھے کہ بعض صورتوں میں خود بینک انتظامیہ کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اسکے بینک کس کا کتنا پیسہ جمع ہے۔ ان بینکوں کو وہاں سے ہٹا لو تو سوئزر لینڈ کے قدرتی منا ظر اور پہاڑوں کی ساری خوبصورتی دھری کی دھری رہ جائے۔سچ تو یہ ہے کہ جس نے پہلگام،گلمرگ اور پیر پنجال کے پہاڑ دیکھے ہیں اسے سوئزر لینڈ کے پہاڑ کیا پسند آئیںگے۔ رہی برف کی بات تو اسے تو روز ہم ریفریجریٹر میں دیکھتے ہیں۔ اب بتاؤ سوئزر لینڈ میں باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ہاں کسی زمانے میں یہاں کی گھڑیاں مشہور تھیں۔ اب جاپان نے انکی ایسی تیسی کر دی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ گھڑی سازی کے معاملہ میں ہر ملک کا ایک وقت ہوتا ہے۔ سوئزر لینڈ کی گھڑی اب ٹل چکی ہے۔‘‘

مجتبی حسین دوستوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ دوستی اور وضعداری نبھاناانہیں خوب آتا ہے۔ دلی کی گہماگہمی میں وہ کبھی حیدرآبادی دوستوں کوکبھی نہیں بھولے۔ دلی میں مزاحیہ مشاعرہ کروائے‘حیدرآباد سے شاعروںکوبلوائے۔ہندوستان بھرمیں محفل مشاعرے کروائے۔مجتبی کی تحریروں کی عوامی مقبولیت کی وجہ ایک اوریہ بھی ہے کہ ان کے یہاں طنز کی کاٹ کے بجائے مزاح کی چاشنی زیادہ ہوتی ہے۔چنانچہ وہ اپنے مضامین سے محفلوں میں قہقہوں کی فصلیں اگاتے گذرجاتے ہیں۔ایک سماں بندھ جاتا ہے۔مجتبی حسین پڑھنے کے ہی نہیں بلکہ سننے کے بھی قلمکارہیں۔ہمارے بعض قلمکارایسے ہیں جواپنی تحریروں سے جادوتوجگادیتے ہیں لیکن جب اسٹیج پرآتے ہیں توسامعین کواپنانہیں سکتے۔لیکن مزاح کے بے تاج بادشاہ اسٹیج پربھی اپنا رنگ جمادیتے ہیں۔سامعین کے معیار اور ذوق پران کی نظر خوب رہتی ہے۔اورجن جن محفلوں میں آپ نے جوکچھ کہا اپنی تحریروتقریر کے حوالے سے ان سے سامعین بخوبی پہلے سے ہی واقف ہوتے ہیں۔جس سے آپ کی کہی بات اورتحریر یہ دونوں خوبیاں جوآپ میں پائی جاتی ہیں سامعین ان ہی باتوں کو داد دے کرقبول کرتی ہے۔قدرت نے آپ کے اندر وہ خوبیاں بھی دیں تمام باتیں فلسفیانہ انداز میں آپ کچھ اس طرح کہہ جاتے ہیں سامعین ان ہی فلسفیانہ باتوںمیں اپنی اصلاح کوڈھونڈتے ہیں۔آپ نے انسانی زندگی کے تمام سلگتے ہوئے مسائل پر اپنی بات مزاح کے ذریعہ رکھی اورلوگوں نے اسے قبول کیا۔آپ کی مقبولیت دنیا کے کونے کونے میں ہے اورپائی جاتی ہے۔آپ کا حسن سلوک ایک معمولی انسان سے لیکر اعلیٰ عہدے کے انسانوں تک ایک ہی جیسا ہے۔اردوکے بڑے بڑے نقاد وادیب شاعر ‘تجزیہ نگار‘صحافی اورمعمولی انسان سے بھی آپ کے تعلقات ہے۔سبھی کوآپ نے طنز ومزاح کی ایک ہی آنکھوں سے دیکھا۔ آپ کی مقبولیت حیدرآباد سے زیادہ دلی میں رہی ہے اورحیدرآباد میں بھی آپ کی مقبولیت یکساں رہی ہے۔

پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا مجتبی حسین کے مزاح میں اپنائیت اورسادگی اتنی ہے کہ پڑھنے والا فوراً ان کے تجربے میں شریک ہوجاتا ہے۔اوران ہی کی نظر سے مناظرکودیکھنے لگتا ہے۔

مجتبی حسین بنیادی طورپرایک قصہ گوہیں۔ ان کا موضوع انسان ہے اور وہ انسان کوسماج کے چوکھٹے میں دیکھتے اورپیش کرتے ہیں۔۔ انہیں واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں کمال حاصل ہے۔

وحیداخترلکھتے ہیں:’’ اگرمجھ سے پوچھاجائے ہندوستان کے مزاحیہ ادب کی بھرپور نمائندگی کونساشہرکرتا ہے توبلاجھجک حیدرآباد کانام لوںگا اوراگریہ دریافت کیاجائے کہ حیدرآباد کی نمائندگی کون کرتا ہے تومیں ایک ہی نام لے سکتا ہوں وہ ہے مجتبی حسین ‘جو خصوصیت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی حیدرآبادیت ہے۔مجتبی حسین کے طنزومزاح کی دنیا میں سمندر کی مانند جوکچھ دیئے ہیں آج کی نسل اورآنے والی نسل کوتحقیق وریسرچ کے لئے ایک نیاباب کھولتی ہے۔یہ کل ہی کی بات ہے آپ کے گفتگوکرنے کا نرم لہجہ میں اپنا نکتہ نظرپیش کرتے ہیں۔یہ ایک شخصیت کا بڑا وصف ہے۔جس نے آج کواتنی بلندیوں تک پہنچایا۔ڈاکٹرمختاراحمدفردین کایہ احساس ہے کہ مجتبی حسین کامیابیوں کی اتنی بلندی پرپہنچنے کے باوجود ہرکسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ان کے طنزومزاح کے ادبی خدمات کواگرمیں تحریروں میں قلمبند کرسکاتوان ہی کی دی ہوئی دوکتابیں پڑھنے سے جوحاصل ہوا۔اس کانتیجہ فکر یہ ہے کہ اس صدی میں طنز ومزاح کے میدان میں مجتبی حسین سے کوئی بڑانظرنہیں آتا۔مجتبی حسین درد رکھنے والے عظیم انسان ہیں‘حالات کے اتارچڑھائوان کے عزائم کوپست نہیں کرسکتے۔پدم شری مجتبیٰ حسین جوخود کہتے ہیں میری زندگی کے تمام حصوں کو اگرمیں تقسیم کروں تو دنیا کے کونے کونے میں محبت رکھنے والے اردوکے ایسے ادیب ‘ایسے طنزومزاح نگار‘ ایسے شعراء کرام اورریسرچرس ‘ جومجھ سے بے انتہا محبت رکھتے ہیںجنہوں نے ہم پرپی ایچ ڈی بھی کی ہے ‘مجھے گرچہ بہت الفت دہلی سے ہے ‘حیدرآباد کا ہوتے ہوئے بھی میں دنیا کے کونے کونے میں خوب جانااورپہچانا جاتا ہوں۔ میں جس ریاست ‘جس ملک اورجس بھی سرحد سے گذرجائوں مجھے ایسے لوگ ملتے ہیں جواپنی محبت سے قائل کرجاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جی ہاں میں نے آپ کودیکھاہے‘پڑھا ہے اورآپ خوب لکھتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ بزم صدف نے ایک ایوارڈ کااعلان انٹرنیشنل سطح پرکیا اور ان کے اعزاز میں سمیناررکھاگیا۔ اس میں کئی مقالے پڑھے گئے۔ اس پروگرام کی کڑی حیدرآباد میں مکمل کی گئی ایک لاکھ روپئے کاایوارڈ دیاگیا‘بہاراکیڈیمی نے بھی مجتبیٰ حسین کے لیے ایوارڈکااعلان کیا ۔کاروانِ اردوکی جانب سے آئندہ کے دنوں میں قطر کی سرزمین پر ان کی خدمات پر ایک سمینارکا اعلان بھی ہوا۔ مجتبیٰ حسین کے حصے میں ایوارڈ کا سلسلہ یوں تو شروع کے دنوں سے ہی آغاز ہوچکاتھا ۔پدم شری ایوارڈ ملنے کے بعد سے جیسے یہ سلسلہ اب کبھی بھی ختم نہ ہوگا۔ طنزومزاح کی دنیا میں اتنے ڈھیر سارے ایوارڈ اگرکسی کے حصہ میں آئے ہیں تو وہ صرف صرف مجتبیٰ حسین ہیں۔ مجتبیٰ حسین کی سادگی اورانکساری ہے جوکوئی بھی ان سے ایک بارملا جیسے ان کے کارواں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شامل ہوگیا۔ آج کی تاریخ میں مجتبیٰ حسین سے بڑا مزاح نگار دنیا میں شائد کوئی اور ……۔

میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوںگا
مجھے مقام نہ دومیں مقام لے لوںگا

ڈاکٹرمختاراحمدفردین
موبائیل : 9849251750
ای میل : mafmassurdu@gmail.com
٭٭٭