سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے خلاف پرتشدد مظاہرے، کئی شہروں میں کرفیو نافذ

Taasir Urdu News Network | Uploaded on 02-June-2020

نیویارک ، یکم جون (آئی این ایس انڈیا ) امریکہ میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد مختلف ریاستوں میں پرتشدد احتجاج اور لوٹ مار کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا۔ حکام نے حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سمیت کئی اہم شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ حکام نے بدامنی کا مرکز بننے والے شہروں واشنگٹن ڈی سی، ہیوسٹن، منیاپولس اور لاس اینجلس میں رات کا کرفیو نافذ کیا ہے۔ شکاگو، ،میامی، ڈیٹرائٹ اور فلاڈیلفیا بھی ان 40 شہروں میں شامل ہیں جن میں رات کے وقت مظاہرے کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ امریکہ کی ریاستوں ٹیکساس اور ورجینیا میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے میئر کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کرفیو کا نفاذ رات 11 بجے سے صبح چھ بجے تک ہو گا۔ اتوار کو ایک مرتبہ پھر منیاپولس، لاس اینجلس اور واشنگٹن ڈی سی سمیت کئی شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پرتشدد احتجاج کے دوران دکانوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ نیو یارک اور میامی میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے جب کہ وائٹ ہاؤس سے ملحقہ پارک میں مظاہرین کے احتجاج کے بعد مظاہروں سے نمٹنے والی فورس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے ساتھ نیشنل گارڈز کو بھی مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔ مقامی رہنما ؤں نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی موت پر تشدد کے بجائے اپنے مطالبات حکام کے سامنے رکھیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباؤ ڈال رہا تھا جو بعد میں دم توڑ گیا تھا۔ اس شخص کی شناخت 46 سالہ جارج فلائیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو ایک مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فلائیڈ کو ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کے قریب سے جعلی بل منظور کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی۔

واقعے کے بعد ریاست منی سوٹا کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس دوران سیکڑوں شہری سڑکوں پر نکلے اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ بعد ازاں یہ مظاہرے مختلف ریاستوں اور شہروں میں پھیلتے گئے اور پرتشدد ہنگاموں کی شکل اختیار کر گئے۔ اس دوران لوٹ مار اور جلاؤگھیراؤ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ امریکہ کا فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے معاملے پر اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ درج ہونے کے باوجود پر تشدد احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس میں سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ مظاہرین کتبے اٹھائے سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں جن میں سے کئی بینرز پر’’ میں سانس نہیں لے سکتا‘‘کی عبارت درج ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں پولیس کی حراست میں کسی سیاہ فام شہری کی ہلاکت ہوئی ہو۔سن 2014 میں نیو یارک میں ایک سیاہ فام شخص پولیس کی زیرِ حراست ہلاک ہو گیا تھا۔ ایرک گارنر نامی سیاہ فام شخص کو کھلے سگریٹس کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے معاملے پر شدید احتجاج کے بعد سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے جمعے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تھا۔