شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

تاثیر اردو نیوز سروس،6؍جون، 2020

تحریر محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719

مدارس اسلامیہ کو ہمیشہ سے وہی حیثیت حاصل رہی ہے جوسارے نظامِ فلکی میں کواکب وسیّارات کے مقابل سورج کو حاصل ہے ان تمام کواکب وسيارات کی رونق، چمک، دمک اور قوت کا اصل منبع و سرچشمہ یہی سورج ہے آپ آزادیِ ہند کے بعد کی اصلاحی یا رفاہی کسی بھی تحریک کے بنیادی ڈھانچہ اور اس کے ابتدائی مراحل کا جائزہ لیجیے تو اس کا آخری سرا کہیں نہ کہیں مدارس سے مرقوم و مربوط نظر آئے گا اس کی زمام اور باگ ڈور انھیں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھوں میں نظر آئے گی یا اس تحریک کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی وترویج اور تقویت کے یہی باعث نظر آئیں گےاس میں کوئ شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل ہیں ۔ وہ دل جس کی دھڑکن زندگی کی علامت اور پہچان ہے اور جس کی خاموشی موت کی خاموشی بن جاتی ہے ،دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم ، مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے، تمام دینی جماعتوں تحریکوں،اداروں تنظیموں اور سوسائٹیوں کو یہیں سے قوت و طاقت کمک اور رسد پہچتی ہے ۔

اگر ان اداروں تحریکوں جماعتوں اور تنظیموں کو یہاں سے یہ پاور، طاقت و قوت اور انرجی نہ پہنچے تو ان کی فعالیت اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے اور ایک طرح سے بے جان و بے حس ہو جائے ۔داعی ہوں یا مبلغ دین کا خادم ہوں یا ترجمان امام ہوں یا خطیب مصنف ہوں یا مولف مرتب ہوں یا صحافی و محرر خطیب ہوں یا واعظ استاد ہوں یا مربی مفتی ہوں یا قاضی امیر ہو یا حاکم یا کوئ بھی خدمت گزار دین کے لائن سے ہوں یا سماجی ورکرر کے اعتبار سے سب اسی کے خوشہ چیں اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہوتے ہیں اور آج بھی اگر کوئی قرآن وحدیث پر گہری بصیرت، علومِ اسلامیہ پر کامل دسترس اور ان علوم کے تئیں وسیع نظری اور دوربیں نگاہی چاہتا ہے تو وہ انھیں مدارس اسلامیہ کی تعلیم وتربیت کے زیرِاثر ہی حاصل کر پائے گا عصر حاضر میں مدارس اسلامیہ خصوصاً متوسط اور غریب خاندانوں کی تعلیم و تربیت کا واحد ذریعہ ہیں یہاں مدارس میں کچھ لیا نہیں جاتا بلکہ سب کچھ دیا جاتا ہے تعلیم بھی  تربیت بھی کتابیں بھی خوراک بھی رہائش بھی سب کچھ مفت۔ یہاں کا بجٹ آمدنی کے بعد نہیں بنتا بلکہ اللہ و رسول کے فضل و احسان اور اہل خیر کے ذریعہ دی جانے والی رقوم کی موہوم امید اور توقعات پر بنا کرتا ہے یہاں کے اساتذہ معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو کم از کم اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے دنیاوی اجرت کا تو کوئی تصور ہی نہیں رکھتے بلکہ اجر خداوندی کی امید پر تسلسل اور دل جمعی کے ساتھ نہایت ہی لگن سے کام کرتے رہتے ہیں ا

ان کی امیدیں اللہ پاک سے لگی ہوتی ہیں ان کے مقاصد جلیل اور آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں رمضان المبارک اور دوسرے موقع سے یہ اہل خیر سے رابطہ کرتے ہیں چھوٹی بڑی رقمیں وصول کرلاتے ہیں جس سے مدارس اسلامیہ کا یہ سارا نظام چلا تے ہیں حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ اکثر فرمایا کرتے تھے-اپنے تعلیمی نظام کو خیرات زکوٰۃ پر منحصر نہیں رکھنا چاہئیے بلکہ اپنی اصل آمدنی میں سے بھی اس کام کے لئے کچھ نکالنا چاہیے لیکن واقعہ یہی ہے کہ عطیات کی مختصر رقم کو چھوڑ کر اب تک مدارس اسلامیہ کا ساراتعلیمی نظام مسلمانوں کے خیرات زکوٰۃ پر ہی منحصر ہے”(ماخوذ از بحرالعلوم کی کہانی بحرالعلوم کی زبانی) امسال رمضان المبارک میں کورونا وائرس کی دہشت اور لاک ڈاؤن کی وحشت نے آمدورفت کے وسائل کو مسدود کر رکھا تھا اور گھر وں سے نکلنے پر پابندی کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور محصلین کا رابطہ اہل خیر حضرات سے نہیں ہوسکا ہاں مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نے آن لائن رقومات بھیجنے کی اپیل ضرور کی اخبارات میں اشتہارات دئیے لیکن کم ہی لوگوں نے اسے درخور اعتنا سمجھا اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کا فیصد بہت کم رہا بڑے اداروں کی طرف تو کچھ توجہ ہوئی بھی لیکن گاؤں اوردیہات میں واقع چھوٹے چھوٹے مدارس کی طرف توجہ اس قدر کم ہوئی کہ اب ان کا جاری رکھنا امرِدشوار معلوم ہوتا ہے اساتذہ کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں اور وصولی صفر ہے ایسے میں یہ ادارے انتہائی پریشان کن دور سے گذر رہے ہیں اور چھوٹے مدارس کی اہمیت و ضرورت بھی کسی پر مخفی نہیں ہے

یہ مسلم سماج میں اسلامی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے’’ لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں مسلم سماج کے جسم و جان میں اسلامی حمیت و غیرت اور دینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کرتا ہے وہ سب انہیں مدارس اسلامیہ کی بدولت ہیں بنیادی دینی تعلیم جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اس کی تکمیل ان اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے-یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اکابرین اور علمائے صالحین نے اس کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرکے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول کر ائی ہے۔اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ اس وقت مدارس اسلامیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس اسلامیہ ہیں یہ مدارس جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے بقول علامہ قمرالزماں خان اعظمی:اگر ان مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ انھیں مدارس کی آغوش میں اپنے شعور و آگہی کی آنکھیں کھولتا ہے.(ماخوذ از خطبات مفکر اسلام) قائد ملت علامہ ارشدالقادری فرماتے ہیں کہ :مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں

،مدرسہ عالم اسلام کا وہ پاورہاؤس ہے جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے  مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کایٔنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے(ماخوذ از فغان درویش) یقیناً دین اسلام کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کے استحکام سے ہے ایسے میں ہماری یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان اداروں کی فکر کریں اور موجودہ پریشان کن حالات سے نکالنے میں ان کی مدد کریں.لاک ڈاؤن کے پانچویں مرحلے میں آمدو رفت کی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں پھر بھی مدارس اسلامیہ اب ایک مہینہ بعد ہی کھل سکیں گے  داخلہ بھی ابھی ممکن نہیں ہے لیکن اساتذہ کو ہٹایا تو نہیں جاسکتا ان کی تنخواہیں تو ملنی چاہیے ان کے بچوں کی فکر بھی ضروری ہے لاک ڈاؤن میں ہماری طرح وہ بھی پریشان کن دور سے گذر رہے ہیں اس لئے اہل خیر حضرات کو عطیات کی رقم سے اپنے اپنے علاقوں میں علماء ، ائمہ مساجد،مؤذنین اور مدارس کے اساتذہ کے لئے دست تعاون دراز کرنا چاہیے، ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچے

اس کے لئے یہ بھی کرسکتے ہیں کہ یہ رقومات مدارس اورمساجد کے ذمہ داروں کو بمد تنخواہ دے دی جائیں،اور وہ ذمہ داران مساجد ومدارس اپنے اساتذہ، ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہیں ادا کریں اس طرح ان کا بھی کام چل جائے گا اور ادارے اساتذہ کے مقروض بھی نہیں رہیں گے. دوسرا بڑا مسئلہ دارالاقامہ میں مقیم طلبہ کے نان و نفقہ اور کھانے پینے کا ہے امراء اور صاحب استطاعت لوگوں کی خیرات و زکوٰ ۃ کی رقوم سے یہ اخراجات پورے کئے جاتے رہے ہیں لیکن اس بار لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کام ہو ہی نہیں سکا اس کا حل یہ ہے کہ اب جب کہ لاک ڈاؤن کو بتدریج اَن لاک کرنے کا آغاز ہوچکا ہے تو حسب سہولت اہل خیر حضرات سے رابطے کا کام شروع کیا جائے یقیناً لاک ڈاؤن نے معاشی طور پر ان کی کمر توڑ دی ہے لیکن زکوٰۃ تو ان پر اس مال میں فرض ہے جو پہلے سے ان کے پاس جمع ہے اہل خیر حضرات غریبوں، یتیموں کی مدد کے ساتھ مدارس کی ضرورتوں کو بھی سمجھتے ہیں اور ہمارا ماننا یہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے اس لئے بدگمانی چھوڑیئے مدارس کو ان پریشان کن حالات بلکہ’’ عالم نزع‘‘ سے نکالنے کے لئے آگے آیئے اس لئے کہ اگر یہ مدارس نہیں رہے تو کیا ہوگا علامہ اقبال سے سنئے فرماتے ہیں:’’اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات، الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش ہی نہیں ملتا ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا-میرا انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہےشاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات