عالمی یومِ ماحولیات، انسان اور اسلامی تعلیمات

تاثیر اردو نیوز سروس،6؍جون، 2020

بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں انسان نے زندگی کے اسباب و وسائل میں وسعت و فراوانی پیدا کی، نئی نئی ٹیکنالوجی استعمال کرکے متنوع مشینیں بنائیں، انسانی سہولت کے پیش نظر تسخیرِ کائنات کے نت نئے طریقے ایجاد کیے، دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش میں خلاؤں کی وسعت پیمائی کری لیکن اس تفوق و ترقی کی دوڑ میں انسان قدرت و فطرت سے چھیڑ چھاڑ کرکے شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی بنیادی زندگی کے ہی قافیے تنگ کر بیٹھا، خلائی پروازوں اور سیاروں پہ کمند ڈالنے میں ایسا محو ہوا کہ اپنے پیروں تلے زمین کو ہی خطرے میں ڈال بیٹھا۔ وسائل زندگی اتنے بے دریغ استعمال کیے کہ کارخانۂ قدرت نے نباتات و حیوانات اور بنیادی عناصر کے بیچ جو توازن قائم کیا تھا اس سے چھیڑ چھاڑ کر بیٹھا جس کے نتیجے میں فضا، پانی  اور ماحول میں جوہری اور غیر طبعی آلودگی پیدا ہو گئی اور اس آلودگی سے طرح طرح کی بیماریاں وجود میں آئیں جن نے نہ صرف فطرت کا نقصان ہوا، جانوروں کی زندگی اور نسلیں تباہ ہوئیں بلکہ خود اس کی حیاتیاتی تنوع بھی معرضِ خطر میں آ گئیں، اس لیے ان تخریب کاریوں اور تلویث کی وجہ سے آج کارخانۂ قدرت کی پیداوار کے تحفظ و بقا کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس لیے سنہ ١٩٧٤ء سے ٥ جون کو عالمی یومِ ماحولیات منایا جانے لگا، اس دن صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے. شجرکاری کی جاتی ہے، پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں، فضائی آلودگی دور کرنے کی ترکیبیں کی جاتی ہیں تاکہ نظام قدرت بحال ہو، ماحول کی آلودگی کم ہو اور قدرتی اسباب زندگی میں فراوانی ہو۔لیکن اسلام نے انسان کو صدیوں پہلے ہی ان احوال و کوائف کے  اشارے دیے تھے اور ان کے تدارک کی شاہ راہ بھی متعین کی تھی، جس پہ انسان اگر اعتدال سے گام زن رہتا تو آج ہمیں ماحول کی آلودگی کے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔   خالقِ عالم جل جلالہ نے انسان کو زمین پہ اپنا نائب و خلیفہ مقرر کرکے سیاہ و سپید کا مالک کرکے یوں ہی عبث نہیں چھوڑ دیا بلکہ قرآن مجید کی تقریباً سات سو آیات میں فطرت و قدرت کی نعمتوں کا، ان کی اہمیت و افادیت کا، ان کے تحفظ و بقا کا ذکر فرمایا، خاص طور سے زمین، پانی اور ہوا کی اہمیت کو متعدد مقامات پر ترغیباًو ترہیباً الگ الگ اسلوب میں بیان کیا ہے، زمین میں تصرف کرنے کے تعمیری طریقوں کی طرف رہنمائی کی، تخریب کاریوں سے روک، افراط و تفریط کے درمیان راہِ اعتدال بھی دکھائی، اور انسان پہ یہ بھی واضح کر دیا کہ کارخانۂ قدرت کی صناعی ایک متعین و محدود مقدار پہ ہے تاکہ انسان اسبابِ زندگی کو استعمال میں لانے میں بے جا افراط نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:انا كل شيء خلقنه بقدر  یعنی بے شک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔(سورۂ قمر آیت نمبر ٤٩) لیکن انسان اپنی غفلت اور سر کشی میں اور عروج و ارتقا کی لالچ میں ان ساری باتوں کو نظر انداز کرتا چلا گیا اور قدرت کے بنائے اسباب و وسائل کو تباہ و برباد کرڈالے۔

فضا، پانی اور ماحول کی آلودگی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث ہمیں  چودہ صدیوں سے اس مسئلے کی طرف ہمیں توجہ دلارہی ہیں، فضائی آلودگی دور کرنے کے لیے رحمت عالم ﷺ نے شجر کاری کرنے کی طرف خوب رغبت دلائی ہے ، شجرکاری کو اسلام میں ایک نوع کے صدقے کی حیثیت حاصل ہے، رسولِ کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باری کرے پھر اس سےانسان پرندے اور چوپائے کھاتے ہیں تو اسے صدقے کا ثواب ملتا ہے (بخاری شریف کتاب المزارعۃ، فصل الزرع اولغرس إذا آکل منہ) جب کہ دوسری حدیث میں شجر کاری، اسی طرح نہر نکلوانے اور کنواں کھدوانے کو صدقۂ جاریہ مانا گیا ہے جس کا ثواب انسان کو دنیا سے جانے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ دوسری طرف تعلیمات اسلام میں بے ضرورت درخت کاٹنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے حتی کہ حالتِ جنگ میں بھی بے ضرورت پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں اور بلا وجہ درخت کاٹنا اور بے ضرورت پھل دار درخت پہ پتھر چلانا اسلام میں بہت ناپسندیدہ عمل ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے بیری کا درخت کاٹا اس نے اپنا سر آگ میں دے دیا۔

(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی قطع السدر)   پانی انسانی و حیوانی زندگی کی بقا کا نہایت اہم عنصر ہے جس کا ضیاع و فساد اسلام میں ایک مجرمانہ عمل ہے، رسول اللہ ﷺ نے پانی کی آلودگی سے روکتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، اسی طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت سے بھی روکنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، پانی کو آلودگی سے بچانے کا اسلام میں اتنا اہتمام کیا گیا ہے کہ مشک کے منہ میں منہ لگا کے پانی پینا بھی اسلام میں ناروا مانا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے بھی روکا ہے۔یوں ہی پانی کی قلت کا مسئلہ جو آج ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قرآن نے اس کے بارے میں بار بار انسان کو یہ وارننگ دی ہے کہ پانی ایک متعین مقدار میں پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ہم نے آسمان سے پانی اتارا ایک اندازہ پر۔(سورہ مومنوں آیت نمبر ١٨)اللہ تعالیٰ نے یہ فرماکے کہ ہم پانی کو ختم کرنے پہ بھی قادر ہیں دنیا والوں کو یہ اشارہ  دیا تھا کہ خدا جب چاہے انسان کو پانی کی قلت میں ڈال سکتا ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ پانی کے استعمال میں بے جا افراط سے بچے اور کسی چیز کی بھی فضول خرچی کے بارے میں تو قرآن کی کھلی عام صراحت ہے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ وضو کر رہے تھے

ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا اسراف ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں اگر چہ تم بہتی نہر پہ وضو کر رہے ہو۔خود سرکار ﷺ کی پانی کے استعمال میں یہ احتیاط تھی کہ پانچ لیٹر سے کم پانی سے آپ پورا غسل فرما لیا کرتے تھے۔(بخاری شریف)  اسی طرح صوتی آلودگی سے بھی اسلام میں سختی سے روکا گیا ہے، اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قرآن مقدس میں یہ ارشاد ہوا کہ اپنی آواز دھیری رکھو  اور سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔حتیٰ کہ نماز میں قراءت کے بارے میں یہ حکم ہوا کہ نا تو ایک دم بلند آواز سے قراءت کی جائے اور نا ہی بالکل پست آواز سے بلکہ افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کی جائے، شور و شغب گانا بجانا اسلام میں بہت ناپسندیدہ ہے، کفار کعبہ کے پاس تالی اور سیٹی بجاتے تھے اس لیے ان کی مذمت کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہے کہ کعبہ کے پاس ان کی نماز نہیں مگر سیٹی اور تالی۔

(سورہ انفال آیت نمبر ٣٥) فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے اسلام میں طہارت کے باب کو خصوصی توجہ دی گئی ہے اور طہارت کو نماز کی کنجی اور ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، بدن کپڑے اور گھر کی نظافت و پاکیزگی کے اصول بنائے گئے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی پسند فرماتا ہے لہذا تم اپنے گھروں کو صاف رکھو اور یہودیوں کی مشابہت سے بچو جس طرح وہ اپنے گھروں میں کوڑا جمع کرکے رکھتے ہیں، یوں ہی سایہ درخت کے نیچے اور سرِ راہ قضائے حاجت سے بھی آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا اور ان کاموں کو لعنتی فعل قرار دیا، اسی طرح گندی بدبو جس سے دوسروں کو ضرر پہنچے اسے بھی پھیلانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے حتی کہ کچا لہسن اور پیاز کھا کر نماز پڑھنے سے ممانعت فرمائی۔   اسلام میں جہاں ماحولیات کے ان سب گوشوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو وہیں پرند چرند کی حفاظت کا بھی حکم دیا گیا ہے اور انھیں بے جا نقصان پہنچانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے گوریا یا اس سے بڑے کسی مخلوق کو ناحق قتل کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس جانور کے بارے میں سوال کرے گا۔اسی طرح سرکار نے جانوروں کو  باندھ کر  نشانہ بنانے والوں پہ لعنت بھیجی ہے۔

آج انسان کی سرکشی، راہِ اعتدال سے انحراف اور خدا و رسول کی حکم عدولی سے پوری دنیا کا نظام بگڑتا چلا جارہا ہے، جانور کم ہوتے چلے جارہے ہیں، اور کچھ نسلیں تو بالکل ختم ہی ہو چکی ہیں۔ کچھ جانور تو انسانوں کے شوقیہ شکاروں کی نذر ہو رہے ہیں، کچھ ماحول کی آلودگی سے متاثر ہوکر ختم ہو رہے ہیں، اور کچھ اسی طرح نباتات کا بھی حال ہے، زہریلی گیسیں ، کیمکل اور ریڈیائی لہریں حیوانات و نباتات سب کی صحت پہ برا اثر ڈال رہی ہیں سے ماحول کی آلودگی  سبب انسان آبادیاں بسانے اور فیکٹریاں لگانے کے لیے جنگل کاٹتا چلا جا رہا ہے۔جس کے نتیجے میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، انسان کا مزاج بھی خوش گوار ماحول میسر نہ ہونے کے سبب بدل رہا ہے، لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن جھنجھلاہٹ ذہنی تناؤ جیسے فاسد عنصر غالب آ رہے ہیں درختوں کے کم ہونے، جانوروں کی نسل ختم ہونے اور پوری دنیا کے ماحول کی تخریب کاری کا پورا ذمہ دار صرف اور صرف انسان ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:خشکی اور تری میں انسانوں کے ہاتھوں کی کرتوت سے فساد ظاہر ہو گیا(سورہ روم آیت نمبر ٤١) اس طرح کی بد عنوانیاں جن سے حیوانات و نباتات و جمادات کو نقصان پہنچے اسلام میں سخت معیوب ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں منافق کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ جب وہ پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے، کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فساد سے راضی نہیں(سورہ بقرہ، آیت نمبر:٢٠٥)

    محمد جنید برکاتی مصباحی  
ریسرچ اسکالر جامعہ اشرفیہ مبارک پور