فساد بھڑکانے پر جیل کیوں نہ جائے کوئی حاملہ عورت

تاثیر اردو نیوز سروس،6؍جون، 2020

ٓآر کے سنہا

کیا فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے جیسے سنگین الزامات کا سامنا کر رہی عورت کو جیل کے پیچھے بھیجنا جرم ہے؟ کیا کوئی حاملہ عورت کسی کے قتل یا دیگر جرائم کرنے کے بعد صرف اسی بنیاد پر جیل سے باہر رہ سکتی ہے کہ اس کے پیٹ میں ایک بچہ پل رہا ہے؟ یہ سوال ضروری ہے اور مناسب بھی ہے۔ بنیادی طور پر، دہلی کی ایک عدالت نے گزشتہفروری میں دارالحکومت میں فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار جامعہ رابطہ کمیٹی ( جے سی سی) کی رکن صفورا زرگر کی ضمانت عرضی کو مسترد کر دیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم فل کی طالبہ صفوراچار ماہ کی حاملہ ہیں۔صفورا پر الزام ہے کہ وہ دہلی میں بھڑکے فسادات کی سازش سے جڑی ہوئی تھیں۔

اب ہم اصل مسئلے پر آتے ہیں۔ صفورا کی رہائی کے حق میں تمام سیکولر وادی سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ صفورا حاملہ ہے اس لئے اس کی ضمانت کی عرضی کو قبول کر لیا جانا چاہئے تھا۔صفورا کے حق میں اس طرح کی کمزور دلیل سیکولر وادی ہی دے رہے ہیں۔ کیا صفورا کے لئے آنسو بہانے والوں نے کبھی اس طرح کی دلیل کسی دوسری عورت کے حق میں دیئے ہیں؟ سب سے زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ صفورا کے لئے بولنے والے کہہ رہے ہیں کہ کیرالہ میں ماری گئی ہتھنی پر ملک دکھی ہو سکتا ہے توصفورا کو لے کر خاموشی کیوں ہے؟ اب آپ بتائیں کہ کیا اتنااحمقانہ موازنہ کرنے کا آج کوئی مطلب ہے؟ پر اس ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے لہذا آپ جو چاہیں بولیں اور جس بات پر چاہیں حکومت کو کوسیں آپ کو کھلی چھوٹ ہے۔

صفورا کے حامی یہ بھی یاد رکھیں کہ دہلی کی عدالت نے اس کی ضمانت کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ انگارے کے ساتھ کھیلتے ہیں، تو چنگاری سے آگ بھڑکنے کے لئے ہوا کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے آگے بھی جوڑا کہ اگرچہ ملزم صفورا نے تشدد کا کوئی براہ راست کام نہیں کیا، لیکن وہ غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کے تحت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی ہیں۔ ‘معاون سازشی اور اشتعال انگیز تقریر شواہد ایکٹ کے تحت ملزم کے خلاف بھی قابل قبول ہیں۔

صفورا نے بھیڑ کو بھڑکانے کے لئے مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کی تھی، جس کے نتیجے میں خوفناک فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں درجنوں لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑوں روپے کی جائیداد بھی تباہ کر دی گئی۔ اس کے نشان اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ گئے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ ایک بار انسان کوئی غلط قدم اٹھا لیتا ہے اور اس کے بعد جب قانون کے پھندے میں پھنستا ہے تو اسے فطری طور پر دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں۔ پھر وہ معافی مانگتا پھرتا ہے۔مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر اسے ملک کا سب سے زیادہ طاقتور انسان بھی قانونی عمل سے بچا نہیں سکتا ہے۔

دکھی ہوگی گاندھی کی روح

صفورا کا تعلق ایک ایسے تعلیمی ادارے سے ہے جس کے قیام میں گاندھی جی کا اہم کردارتھا۔ اس میں حکیم اجمل خان، ملک کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین اور مورخ مشیر الحسن جیسے نام منسلک رہے ہیں۔ اسی جامعہ میں منشی پریم چند نے اپنی کلاسیکی کہانی کفن 1935 میں لکھی تھی۔ پریم چند نومبر، 1935 میں دہلی میں جامعہ میں ٹھہرے تھے۔ ان کے یہاں میزبان ‘رسالہ جامعہ’ میگزین کے ایڈیٹر عقیل صاحب تھے۔ تب عقیل صاحب نے پریم چند سے یہاں رہتے ہوئے ایک کہانی لکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے اسی رات کو ‘کفن’ لکھی۔اسی جامعہ کے ہندی سیکشن سے ملک کے نامور ہندی دانشور جیسے پروفیسر عبد ال بسم اللہ، اصغر وجاہت، اشوک چکر دھر منسلک رہے ہیں۔ ذرا بدقسمتی دیکھیں کہ اب اس تعلیمی ادارے سے فسادات بھڑکانے والے نکل رہے ہیں۔ دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی فسادات کیس کی غیر جانبدارانہ جانچ اور فورنسک ثبوتوں کے تجزیوں کے بعد ہی بہت سے سازشیوں، فسادیوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ ان میں جامعہ کے کئی طالب علم بھی ہیں۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے ‘تمام گرفتاریاں سائنسی اور فارنسک ثبوتوں کے تجزیہ کے بعد ہی کی گئی ہیں جس میں ویڈیو فوٹیج وغیرہ شامل ہیں۔

کاش صفورا نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کے دوران جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے اشتعال انگیز تقریر کرنے سے پہلے یہ سوچا ہوتا کہ اس ایکٹ سے ملک کے قوم کی بھی روح دکھی ہوگی۔ اتنا اس نے سوچا ہوتا تو شاید دہلی میں اتنا شدید فسادابھڑکتا ہی نہیں۔ یاد رکھیں کہ دہلی میں فسادات منصوبہ بند طریقے سے تب بھڑکائے گئے جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہلی میں تھے۔ فسادات بھڑکنے کا نقصان یہ ہوا کہ ٹرمپ کا دورہ پردہ خفا میں چلا گیا اور میڈیانے نمایاں طور پر فسادات کی تصاویر ہی شائع کیں۔ یہ سب ملک کو بدنام کرنے کے لیے ہی سازش کے تحتکیا گیا تھا۔ اس سازش میں یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ سازشی فسادی کامیاب رہے اور سرکاری خفیہ نظام فیل رہا۔

مگر بند کرو کردار کشی

اگرچہ صفوراپر لگے تمام الزامات کے باوجود اتنا تو ضرور کہوں گا کہ کسی کو بھی اس کی کردار کشی کاحق نہیں،اس کے کردار پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر ہی کچھ لوگ کہنے سے باز نہیں آ رہے ہیں کہ صفورا بغیر شادی کے حاملہ کس طرح ہو گئی۔ یہ انتہائی شرمناک تبصرہ ہے۔ صفورا شادی شدہ ہے۔ کسی بھی عورت پر اوجھا تبصرہ کرنے کا کسی کو قطعی حق نہیں ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ دہلی کی ماڈل جیسیکا لال کا جب 1999 میں قتل ہوا تھا تب بھی بہت سی ناقص ذہنیت والے لوگ اس کے کردار پر ہی سوال کھڑے کر رہے تھے۔یعنی اس کے قتل کے بعد بھی اس کی کردار کشی ہو رہی تھی۔ جیسیکا لال دارالحکومت کے ایک پڑھے لکھے خاندان کی لڑکی تھی۔ وہ ایک ریستوران میں پارٹ ٹائم کام کرتی تھی، تاکہ اپنے گھر کی مالی حالت کو بہتر بناسکے۔ کیا یہ اس کا کوئی جرم تھا؟

بہر حال، ہم اپنے اصل موضوع پر واپس چلیں گے۔صفورازرگرکو ابھی بھی اپنا موقف رکھنے کے تمام مواقع باقی ہیں۔ انہیں بھارت کے منصفانہ نظام عدل پر یقین کرنا چاہئے۔اگر ان پر لگے الزامات ثابت نہیں ہوئے تو وہ باعزت بری ہو ہی جائیں گی۔ لیکن الزام ثابت ہونے پر قانون مناسب سزا سنانے کا کام کرے گا۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان کا قانون کسی کے تئیں مذہب، ذات، صوبہ، رنگ، جنس وغیرہ کی بنیاد پر نہ تو سختی کرتا ہے اور نہ ہی ہمدردی دکھاتا ہے۔

( مضمون نگار سینئر ایڈیٹر، کالم نگار اور سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں)